تبلیغی فاصلاتی نظام

اس بلاگ میں قرآن و اھلیبیت علیھم السلام اور ان سے متعلق دوسرے علوم کے بارے میں مضامین اور مطالب قارئین کی خدمت میں پیش کیئے جائیں گے۔

تبلیغی فاصلاتی نظام

اس بلاگ میں قرآن و اھلیبیت علیھم السلام اور ان سے متعلق دوسرے علوم کے بارے میں مضامین اور مطالب قارئین کی خدمت میں پیش کیئے جائیں گے۔

تبلیغی فاصلاتی نظام
قرآن وعلوم قرآن و اهلبیت...

۲ مطلب در فوریه ۲۰۱۷ ثبت شده است

Tuesday, 14 February 2017، 12:10 PM

صحیفۂ کاملہ کا تجزیاتی مطالعہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

امام سجاد ع سلام کے چودہ سو سالہ جشن ولادت کے موقع پر مومنیین کے لیے خصوصی تحفہ

صحیفۂ کاملہ کا تجزیاتی مطالعہ

 

تمہید:

حضرت علی(ع) ابن الحسین (ع) امام زین العابدین(ع) سلسلہ ائمہ حقہ کے چوتھے امام ہیں ۔ آپ کی ولادت کی تاریخ میں اختلاف ہے علامہ سبط الجوزی نے تذکرہ خواص الائمہ میں امام جعفر (ع) صادق کے حوالہ سے ٥، شعبان ٣٨ ہجری بیان کیا ہے لیکن بعض مورخین ١٥ جمادی الاول پر متفق ہیں۔ اکثریتی روایات کے بموجب آپ کی شہادت ٢٥ محرم ٩٥ھ میں واقع ہوئی، امام کے ٥٧ سال پر محیط زندگی کے حالات کو ہم زیادہ تر سانحہ کربلا کے حوالے سے جانتے ہیں۔ تاریخ کے اوراق اور منبر سے بھی کربلا کے واقعات میں امام کی مظلومیت ہی ذکر کا محور رہتی ہیں۔ فصیح البیان شاعر فرزدق کے فی البدیہہ قصیدے کے حوالے سے بھی امام کا خوانوادہ رسالت وامامت کی عظیم فرد کی حیثیت سے تعارف کیا جاتا ہے۔ لیکن ان تمام نسبتوں میں ممتاز امام کی شناخت صحیفہ کاملہ ہے جو ایک عظیم الشان کتاب ہے۔ یہ دعاؤں اور مناجات کی کتاب ہے اور اس کا زیادہ تر استعمال سر سری، وقتی اور ذکر دعا تک ہی محدود رہتا ہے۔ ان دعاؤں میں حکمت اور دانائی، معرفت الہی ، عبدو معبود کے تعلقات، حقوق الناس اور استغفار، تزکیہ نفس اور تخلیق کائنات سے متعلق رموز اور مضامین لائق توجہ ہیں۔ امام زین العابدین کی حقیقت معرفت کے لئے اس صحیفہ کابغور مطالعہ ضروری ہے۔ زیر نظر مقالہ صحیفہ کاملہ کا تجزیاتی مطالعہ ہے اس میں اس عظیم کتاب کی چند خصوصیات مثلاً تاریخی ماحول، اسناد ، فلسفہ ، دعا، اسلوب بیان اور دعاؤں کے مضامین کے تجزیہ سے اس کتاب کے ادبی، علمی اور تبلیغی پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی ایک کوشش کی گئی ہے۔

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 14 February 17 ، 12:10
رضا رضوی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حضرت  فاطمہ زھرا کا خطبہ غرّہ{فدکیہ}

جس وقت حضرت ابوبکر نے خلافت کی باگ ڈور سنبھالی اور باغ فدک اپنے قبضہ میں کرلیا، جناب فاطمہ (س) کو خبر ملی کہ خلیفہ نے سرزمین فدک سے آپ کے نوکروں کو ہٹا کر اپنے کارندے معین کردئیے ھیں تو آپ نے چادر اٹھائی اور با پردہ ھاشمی خواتین کے جھرمٹ میں مسجد النبی (ص) کی طرف اس طرح چلی کہ نبی (ص) جیسی چال تھی اور چادر زمین پر خط دیتی جا رہی تھی۔

جب آپ مسجد میں وارد هوئیں تو اس وقت جناب ابو بکر، مھاجرین و انصار اور دیگر مسلمانوں کے درمیان بیٹهے هوئے  تهے، آپ پردے کے پیچ ہے جلوہ افروز هوئیں اور رونے لگیں، دختر رسول کو روتا دیکھ کر تمام لوگوں پر گریہ طاری هوگیا، تسلی و تشفی دینے کے بعد مجمع کو خاموش کیا گیا، اور پھر جناب فاطمہ زھرا (س) نے مجمع کو مخاطب کرتے هوئے فرمایا: 

اے لوگو! جان لو میں فاطمہ هوں، میرے باپ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  تهے، میری پھلی اور آخری بات یھی  ہے، جو میں کہہ رھی هوں وہ غلط نھیں  ہے اور جو میں انجام دیتی هوں بے هودہ نھیں  ہے۔

”خدا نے تم ھی میں سے پیغمبر کو بھیجا تمھاری تکلیف سے انھیں تکلیف هوتی تھی وہ تم سے محبت کرتے تهے اور مومنین کے حق میں دل سوز و غفور و رحیم  تهے۔“

وہ پیغمبر میرے باپ تهے نہ کہ تمھاری عورتوں کے باپ، میرے شوھر کے چچازاد بھائی تهے نہ کہ تمھارے مردوں کے بھائی، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے منسوب هونا کتنی بھترین نسبت اور فضیلت  ہے۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 11 February 17 ، 23:36
رضا رضوی