لوح ایّام( ۲۰ ذی الحجہ )
ابراہیم کا لشکر نہر خازر کے ساتھ چلتا ہوا پانچ فرسخ طے کرکے
موصل کے قریب پہنچا اوراسی مقام کو اپنے لئے بطور لشکر گاہ مقرر کیا۔ ابن زیاد ۳۰
یا ۸۰ ہزار کے لشکر کے ساتھ موصل پہنچا ۔
جس شب کی صبح جنگ ہونا تھی ابراہیم اس شب نہ سو سکا اور ساری
رات ان الفاظ کی اپنے لشکر کے سامنے تکرارکرتا رہا” اے لوگو! تم دین خداوندی کے
ناصر ہو اور امام امیر المومنین(علیہ السلام)کے محب ہو۔یہ عبیداللہ ابن زیاد ، پسر
مرجانہ ہے، حسین بن علی (علیھما السلام)کا قاتل ہے۔ یہ وہ ہے جس نے فرزند
زہرا(سلام اللہ علیھا)تک ایک گھونٹ پانی نہ جانے دیا، حالانکہ ان کے چھوٹے چھوٹے
بچے ”العطش العطش“ کی آوازیںدے رہے تھے، اور یہ وہ ہے جس نے فرزند رسول کے راستے پر
رکاوٹیں کھڑی کیں۔آخر کار انہیں گھیر لیا گیا آپ کو تشنہ لب شہید کردیا گیا اور ان
کے اہل وعیال کو کنیزوں کی طرح اونٹوں پر سوار کرکے شام لے گئے۔ قسم بخدا فرعون کے
طرفداروں نے بنو اسرائیل کے ساتھ ایسا سلوک نہ کیا جس طرح ان لوگوں نے ذریت
پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ)کے ساتھ کیا“۔
اس کے بعد ابراہیم نے دعامانگی: خدایا! ہمیں فتح و نصرت عطا
فرما۔ ہم اہلبیت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ)کے خون کا انتقام لینے آئے ہیں۔