حضرت معصومہ (س) کی رحلت
والد ماجد کی شہادت کے بعد آپ اپنے برادر عزیز امام رضا علیہ السلام کے زیر سایہ رہیں. سنہ ٢٠٠ھ میں خلیفہ وقت مامون عباسی کے اصرار اور دھمکیوں کی وجہ سے امام رضاعلیہ السلام نے تنہا خراسان کے شہر «مرو» (MARV) کی طرف ہجرت کی. اس سفر مین اہلبیت(ع) کا کوئی بھی دوسرا فرد آپ کی ہمراہ نہ تھا.
حضرت معصومہ (س) امام رضا علیہ السلام کی ہجرت کے ایک سال بعد اپنے بھائی کے دیدار اور زینبی رسالت کو ادا کر نے کی نیت سے ولایت کاا پیغام لے کر اپنے چند بھائی بھتیجوں کے ساتھ خراسان کی طرف روانہ ہو ئیں. ہر شہر و دیہات میں آپ کا استقبال ہؤا اورآپ نے اپنی جدہ ماجدہ حضرت زینب(س) کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے اپنے بھائی کی مظلومیت کو لوگوں کے سامنے بیان کیا اور بنی عباس سرکار کی مکاری اور مکر و فریب کو مسلمانوں کے سامنے بے نقاب کیا؛ اسی لئے جب آپ کا قافلہ شہر ساوہ میں پہنچا تو مامون کی جانب سے مامور افراد آپ کے راستے میں حائل ہو گئے اور جنگ شروع کردی؛ جس کے نتیجے میں قافلہ والون کی اکثریت نے جام شہادت نوش کیا.
ایک روایت کے مطابق آپ کو بھی زہر دے دیا گیا. بہر حال حضرت معصومہ (س)بیمار ہوگئیں اور خراسان جانے کا ارادہ ملتوی کرتے ہوئے دریافت کیاا کہ قم یہاں سے کتنے فاصلے پر ہے؟ اور فرمایا: ہم کو قم لے چلو اس لئے کہ ہم نے اپنے والد ماجد سے سنا ہے کہ قم ہمارے چاہنے والوں کا مرکز ہے.
حضرت معصومہ س کا شہر قم میں استقبال
اہل قم کو جیسے ہی یہ خبر ملی فوراً آپ (س) کے استقبال کے لئے نکل پڑے. اشعری خاندان کے بزرگ موسیٰ بن خزرج اشعری نے بڑھ کر آپ (ع) کا استقبال کیا. وہ آپ کی اونٹنی کی مہار اپنے کاندھے پر رکھے ہوئے آگے آگے چل رہے تھے اور کجاوے کے ساتھ ساتھ کچھ سوار اور کچھ پیادے آپ (س) کی ہمراہی کر رہے تھے.
آپ نہایت عزت و احترام کے ساتھ ٢٣ربیع الاول 201ھ میں شہر مقدس قم میں داخل ہوئیں؛ اس کے بعد آپ کی اونٹنی موسیٰ بن خزرجج کے گھر کے سامنے بیٹھ گئی. یہ جگہ آج «میدان میر» کے نام سے جانی پہچانی جاتی ہے.
موسیٰ بن خزرج کو آپ کی میزبانی نصیب ہوئی. سترہ روز تک آپ کا قیام اس مقام پر رہا اور ان ایام میں آپ راز ونیاز پروردگار میںں مشغول رہیں. آپ کی عبادت گاہ مدرسہ ستیہ ، بیت النور کے نام سے آپ کے چاہنے والوں کی زیارتگاہ بنی ہو ئی ہے.
بہر حال آپ (س) کو اپنے بھائی کا دیدار نصیب نہ ہوا اور 10 ربیع الثانی یا 12 ربیع الثانی ۲۰۰ھ، کو اس دنیا سے انتقال کر گئیں اور شیعیان آل محمد (ص) کو اپنے غم میں سوگوار اور عزادار کردیا.
آپ (س) کو باغ بابلان (جس جگہ آج آپ (س) کا حرم ہے) میں دفن کیا گیا.
آج حضرت معصومہ (س)کا روضۂ مبارک اور آپ (س) کی قبر شیعیان اہل بیت علیہم السلام کے دلوں کی قبلہ گاہ اور بیماروں کے لئے دار الشفاء ہے.
فضیلت زیارت
وہ روایتیں جو آپ کی زیارت کے سلسلے میں وارد ہوئی ہیں آپ کے فضائل کی بہترین سند ہیں کیونکہ ائمہ معصومین علیہم السلام نے اپنےے پیروکاروں کو اس مرقد مطہر و منور کی زیارت کی تشویق فرمائی ہے نیز اس کا بہت عظیم ثواب بیان فرمایا ہے یہ ثواب ایسا ہے کہ جو امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی اولاد میں امام رضا علیہ السلام کے بعد فقط آپ ہی کے سلسلے میں کتابوں میں ملتا ہے ۔ ہم یہاں فقط چند روایات ذکر کرتے ہیں ہیں ۔
۱۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : من زارہا فلہ الجنۃ[1] : یعنی جو ان (فاطمہ معصومہ) کی زیارت کرے گا وہ بہشت کا حقدار ہے ۔
۲۔ امام محمد تقی علیہ السلام نے فرمایا : من زارہا قبر عمتی بقم فلہ الجنۃ [2]: یعنی جو قم میں ہماری پھوپھی کی زیارت کرے گا اس کے لئے جنت ہے ۔
۳۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : من زارہا عارفا بحقھا فلہ الجنۃ [3]: جو ان (فاطمہ معصومہ) کی زیارت ان کے حق کو پہچانتے ہوئے کرے گا وہ بہشت کا حق دار ہے ۔
۴- امام جعفرصادق علیہ السلام نے فرمایا : قال الامام الصادق علیہ السلام : ان لِلّٰہ حرما و ہو مکہ وللرسول حرما و ہو المدینہ و لامیرالموٴمنین حرما و ہو الکوفۃ و لنا حرما و ہو قم و ستدفن فیہ-اامرۃ من ولدی تسمی فاطمۃ من زارہا وجبت لہ الجنۃ ۔(قال علیہ السلام ذالک و لم تحمل بموسیٰ امۃ)[4]
خدا کے لئے ایک حرم ہے اور وہ مکہ ہے رسول کے لئے ایک حرم ہے اور وہ مدینہ ہے ، امیرالموٴمنین کے لئے ایک حرم ہے اور وہ کوفہ ہے ہمارے لئےے ایک حرم ہے ایک حرم ہے اور وہ قم ہے ، عنقریب وہاں میری اولاد میں سے ایک خاتون دفن کی جائے گی جس کا نام فاطمہ ہوگا ۔
امام علیہ السلام نے یہ حدیث اس وقت ارشاد فرمائی کہ جب امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی والدہ حاملہ بھی نہ ہوئی تھیں ۔ جو بھی اس کی زیارت کرے گا اس پر جنت واجب ہوگی ۔
اس روایت سے خصوصا اس نکتہ کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی ولادت سے قبل یہ حدیث صادر ہوئی بخوبی اندازہ ہوتاا کہ حضرت فاطمہ معصومہ کا قم میں دفن ہونا خداوند عالم کے اسرار میں سے ایک سر خفی ہے اور اس کا تحقق مکتب تشیع کی حقانیت کی ایک عظیم دلیل ہے ۔
امام سجاد علیہ السلام کی دعا
الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی هَدَانَا لِحَمْدِهِ، وَ جَعَلَنَا مِنْ أَهْلِهِ لِنَکُونَ لِإِحْسَانِهِ مِنَ الشَّاکِرِینَ، وَ لِیَجْزِیَنَا عَلَى ذَلِکَ جَزَاءَ الْمُحْسِنِینَ (2) وَ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی حَبَانَا بِدِینِهِ، وَ اخْتَصَّنَا بِمِلَّتِهِ، وَ سَبَّلَنَا فِی سُبُلِ إِحْسَانِهِ لِنَسْلُکَهَا بِمَنِّهِ إِلَى رِضْوَانِهِ، حَمْداً یَتَقَبَّلُهُ مِنَّا، وَ یَرْضَى بِهِ عَنَّا
ساری حمد اس اللہ کے لئے ہے جس نے ہمیں حمد کی ہدایت دی اور اس کا اہل قرار دیا ہے اکہ ہم اس کے احسانات کا شکریہ ادا کرنے والوں میں شامل ہو جائیں اور وہ ہمیں اس بات پر نیک کرداروں جیسی جزا دے سکے ۔ ساری حمد اس اللہ کے لئے ہے جس نے ہمیں اپنا دین عطا فرمایا اور اپنی ملت کا امتیاز بخشا اور اپنے احسان کے راستوں پر لگا دیا تاکہ اس کے احسان کے سہارے اس کی مرضی تک پہنچ جائیں ۔ ایسی حمد جسے وہ ہم سے قبول کر لے اور اس کے ذریعہ سے ہم سے راضی ہو جائے۔