سوانح حیات صاحب تفسیر فصل الخطاب علامہ نقن
پیدائش
26 رجب 1323 ھ مطابق 1905ء لکھنؤ، بہارت کو ممتاز العلماء ابو الحسن منن صاحب کے ہاں پیدا ہوئے کہ جوشمس العلماء سید ابراہیم بن جنت مآب سید تقی بن سید العلماء سید حسین علیین مکان ابن غفران مآب دلدار علی کے فرزند تھے.
تعلیم و تربیت
ابھی آپ کی عمر ۳. ۴ سال کے درمیان تھی کہ آپ کے والد ماجد ۱۳۲۷ھ میں مع متعلقین تکمیل علوم کے لئے نجف اشرف تشریف لے گئے. آپ کی عمر ۹/برس کی تھی جب ۱۳۲۳ھ میں آپ کے والد گرامی ہندوستان واپس آئے. اس وقت تک آپ کی صرف ونحو کی ابتدائی کتابیں ختم ہوچکی تھیں. لکھنؤ واپس آ کر آپ کے والد صاحب طاب ثراہ نے آپ کی تعلیم اپنے ذمے رکھی. والد کی علالت کے زمانے میں آپ کے برادر معظم مولانا سید محمد عرف میرن صاحب آپ کو پڑھاتے تھے.
وفات
آپ نے یکم شوال روزعید الفطر ۱۴۰۸ھ/۱۸مئی ۱۹۸۸ء کو لکھنؤ میں رحلت فرمائی . اور وہیں سپر د خاک کئے گئے.
علمی صلاحیت آپ بے پناہ علمی صلاحیتوں کے مالک تھے . آپ ایک ہی وقت میں دو مدرسوں:مدرسہ ناظمیہ اور سلطان المدارس میں پڑھتے تھے اور آپ نے مدرسہ ناظمیہ کے "فاضل" اور سلطان المدارس کے "سند الافاضل" کا ایک ہی ساتھ امتحان دیا. پھر دوسرے سال دونوں درجوں کے ضمیموں کا اور تیسرے سال "ممتاز الافاضل" اور "صدر الافاضل" کاایک ساتھ ہی امتحان دیا.
طالب علمی میں ہی سر فراز لکھنؤ،الواعظ لکھنؤ اور شیعہ لاہور میں آپ کے علمی مضامین شائع ہونے لگے تھے. ۳. ۴ کتابیں بھی عربی اور اردو میں اسی زمانے میں شائع ہوئیں. تدریس کا سلسلہ بھی جاری تھا. کچھ عرصے تک بحثیت مدرس ناظمیہ میں بھی معقولات کی تدریس کی اس دور کے شاگردوں میں مولانا محمد بشیر صاحب فاتح ٹیکسلا. علامہ سید مجتبی حسن صاحب کاموں پوری اور جناب حیات اللہ انصاری شامل تھے.
عربی ادب میں آپ کی مہارت اور فی البدیہ قصائد ومراثی لکھنے کے اسی دور میں بہت سے مظاہرے ہوئے اور عربی شعر وادب میں آپ کے اقتدار کو شام، مصر اور عراق کے علماء نے قبول کیا. اسی مہارت کو قبول کرتے ہوئے علامہ امینی نے آپ کے قصائد کے مجموعے میں سے حضرت ابو طالب کی شان میں آپ کے قصیدے کو (الغدیر) میں شامل کیا اور آغائے بزرگ تہرانی طاب ثراہ نے شیخ طوسی کے حالات کو آپ ہی کے لکھے ہوئے مرثیے پر ختم کیا ہے .
اسی طرح آپ کی مزید علمی صلاحیتوں کا مشاہدہ عراق میں حصول علم کے ان ایام کی تالیفات سے کیا جا سکتا ہے جہاں آپ نے سب سے پہلے "وہابیت" کے خلاف ایک کتاب تصنیف کی جو بعد میں " کشف النقاب عن عقائد ابن عبدالوهاب "کے نام سے شائع ہوئی. عراق وایران کے مشہور اہل علم نے اس کتاب کو ایک شاہکار قرار دیا. دوسری کتاب " اقالۃ العاثر فی اقامۃ الشعائر" حضرت امام حسین کی عزاداری کے جواز میں اور تیسری کتاب " السیف الماضی علی عقائد الاباضی "کے نام سے چار سو صفحات پر مشتمل کتاب خوارج کے رد میں لکھی.
اساتذہ لکھنو میں جن حضرات سے آپ نے علم حاصل کیا :
ان کے والد بزرگوارممتاز العلماء ابو الحسن منن صاحب
مولانا سید محمد عرف میرن صاحب
نجم الملۃ
جناب باقر العلوم
سفر عراق اور حصول علم سید العلماء اپنی زندگی میں دو مرتبہ عراق تشریف لے گئے . پہلی مرتبہ اپنے والد محترم کے ساتھ گئے اور دوسری مرتبہ ۱۳۴۵ھ مطابق ۱۹۲۷ء میں تکمیل علم کے لئے عراق تشریف لے گئے. آپ نے عراق میں صرف پانچ سال کا عرصہ گزارا. ان پانچ برسوں میں آپ نے فقہ واصول میں وہ ملکہ پیدا کیا کہ اس دور میں آپ کی علمی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے اس زمانے کے ۳/مجتہدین یعنی "آیۃ اللہ اصفہانی"، "آیۃ اللہ نائینی" اور "آیۃ اللہ سید ضیاء الدین عراقی" نے آپ کو واضح الفاظ میں اجتہاد کے اجازے دے کر آپ کی علمی صلاحیتوں کا اعتراف کیا. علم کلام اور دفاع مذہب میں آپ کی مہارت کا لوہا "سید محسن امین عاملی"، "شیخ جواد بلاغی"، "محمد حسین کاشف الغطاء"' اور " سید عبد الحسین شرف الدین موسوی" نے مان لیا.
اجازۂ اجتہاد
درج ذیل شخصیات نے آپ کو اجازۂ اجتہاد سے نوازا:
آیۃ اللہ اصفہانی
آیۃ اللہ نائینی
آیۃ اللہ سید ضیاء الدین عراقی
آیت اللہ شیخ عبد الکر یم یزدی حائریؒ (مؤسس حوزہ علمیہ قم)
آیت اللہ محمد حسین اصفہانیؒ
آیت اللہ ابراہیم معروف بہ میراز آقائے شیرازیؒ
آیت شیخ ہادی کاشف الغطاءؒ
آیت اللہ میرزا علی یزدانیؒ
آیت اللہ شیخ محمدحسین تہرانیؒ
آیت اللہ شیخ کاظم شیرازیؒ
آیت اللہ میرزا ابو الحسن مشکینیؒ
آیت اللہ سید سبط حسن مجتہدؒ
علمی خدمات آپ کی علمی زندگی کو تین حصوں : خطابت، شاگرد پروری، تحریر میں تقسیم کیا جا سکتا ہے .
خطابت
سید العلماء کی خطابت کا ایک خاص رنگ تھا جو عبارت آرائی وسستی نکتہ آفرینی کے بجائے علم اور تحقیق پر مبنی تھا. اور ایک گھنٹہ کی مجلس میں حقائق کے کتنے دروازے وا ہوجاتے تھے ان کی تقریر اور تحریر میں بہت کم فرق ہوتا تھا. دوسری خاص بات ان کی تقریروں میں یہ تھی کہ کہ ہرمذہب وملت کا ماننے والا اسے اطمینان قلب کے ساتھ سن سکتا تھا. اور فیض یاب ہو سکتاتھا. کسی جملہ سے کسی کی دل آزاری کا خطر ہ نہیں تھا.
شاگرد پروری
لکھنویونیورسٹی:عراق سے واپسی کے کچھ عرصہ بعد ۱۹۳۲ء میں آپ لکھنؤ یونیورسٹی کے شعبۂ عربی سے وابستہ ہوگئے اور "ستائیس برس" تک طلباء کو فیض پہنچاتے رہے.
علی گڑھ یونیورسٹی :۱۹۵۹ء میں علی گڑھ یونیورسٹی نے آپ کو شیعہ دینیات کے شعبے میں بحیثیت ریڈر مدعو کیا اور آپ علی گڑھ منتقل ہوگئے. پھرآپ شیعہ دینیات کے پروفیسر بنائے گئے. ریٹائرمنٹ کے بعد آپ نے علی گڑھ ہی میں سکونت اختیار کرلی. ۱۹۷۷ء میں لکھنؤ کے کچھ شرپسندوں نے آپ کے لکھنؤ کے مکان میں آگ لگادی. جس میں ہزاروں قیمتی کتابیں جل کر راکھ ہوگئیں. اس میں آپ کے عربی تصانیف کے غیر مطبوعہ مسودات بھی تلف ہوگئے جن کا انھیں آخر عمر تک صدمہ رہا.
تحریری خدمات
آپ نے جہاں ترویج دین کیلئے خطابت کو اختیار کیا وہاں اس کے ساتھ ساتھ اپنی علمی صلاحیتوں کو قرطاس و قلم کے حوالے بھی کیا بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ آپ اپنی زندگی میں تبلیغ دین کی نشر و اشاعت کیلئے خطابت کی نسبت شعبہ تدریس اور تحریر کو زیادہ اہمیت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اس کی اہمیت اور افادیت کا اندازہ آپ کی کتب کی طویل فہرست کو دیکھ کر لگایا سکتا ہے. آپ نے اپنی مصروفیات کے باوجود خاص طور پر اردو زبان میں نہایت اہم کتب، رسائل اور مضامین کا ذخیرہ آنے والی نسلوں کیلئے صدقۂ جاریہ کے عنوان سے چھوڑا اور اس کے علاوہ عربی زبان میں بھی عمدہ کتابیں تصنیف کیں. آپ کے قلم سے تحریر ہونے والی کتب، رسائل اور مضامین کی کل تعداد فہرست کتابچہ سید العلماء کے مطابق 141 بیان ہوئی ہے.
تفسیر فصل الخطاب جلد ۶