روایات اور تاریخ کے آئینہ میں اربعین امام حسین ع کا تحقیقی جایزہ
چہلم کیا ہے؟(قرآن اور روایات کی روشنی میں )
چہلم سے مراد کیا ہے علماءنے اس موضوع پر کافی بحث کی ہے لیکن جس بات کا شیخ طوسی نےعندیہ دیا ہےوہ یہ ہے کہ زیارت اربعین سے مراد ۲۰ صفر کو امام حسین علیہ السلام کی زیارت ہے کہ جو عاشورہ کے بعد چالیسواں دن ہے۔ اس لئے انہوں نے اس روایت کو اپنی کتاب تہذیب کے زیارت کے باب میں اور اربعین کے اعمال میں ذکر کیا ہے ۔ اس دن کی مخصوص زیارت بھی نقل ہوئی ہے جسے مرحوم شیخ عباس قمی نے مفاتیح الجنان میں ذکر کیا ہے ۔ لیکن چالیس دن کے بعد ہی کیوں ؟کہنا چاہیے کہ چالیس کا عدد روایات میں حتیّ قرآن میں بھی اسکا خاص مقام ہے اور اس عدد (۴۰) کی کچھ خصوصیات ہیں کہ جو دوسرے اعداد کے اندر نہیں ہیں ۔ مثال کے طور پر خداوند متعال قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:
اذابلغ اشدّہ وبلغ اربعین سنة[1]
یعنی جس وقت وہ کمال کی حالت تک پہنچااور چالیس سال کا ہو گیا۔
اسی طرح بعض انبیاءچالیس سال کی عمر میں مقام رسالت پر فائزہوئے مثال کے طور پر حضرت علی علیہ السلام نے ایک ادمی کو جوا ب میں جب اس نے سوال کیا کہ عزیر کتنی سال کی عمر میں رسالت کے مقام پر فائز ہوئے بعثہ اللہ و لہ اربعون سنة [2] یعنی اس سوال کے جواب میں کہ جناب عزیر کی عمر رسالت کے آغاز میں کتنی تھی ؟ فرمایاکہ رسالت کے آغاز میں انکی عمر چالیس سال تھی اور خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی چالیس سال کی عمرمیں مقام رسالت پر فائز ہوئے جیسا کہ معتبر روایات میں آیا ہے۔
صدع بالرسالةیوم السابع والعشرین من رجب و لہ یومئذاربعون سنة [3] یعنی حضرت محمّدبن عبداللہ خاتم انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 27رجب کو چالیس سال کی عمر میں رسالت پر مبعوث ہوئے ۔اسی طرح دعاوں میں اور بعض دینی معارف میں چالیس کے عدد کا ایک خاص مقام ہے۔ مرحوم علاّمہ مجلسی اس دعا کو نقل کرنے کے بعد کہ جس میں خدا کے نام ہیں یوں نقل کرتے ہیں:عن النّبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم لو دعا بہا رجل اربعین لیلة جمعةغفراللہ لہ[4] اگر کوئی شخص چالیس شبہائے جمعہ کو خداوند متعال کی بارگاہ میں اس دعا کو پڑھے توخدا اسکو بخش دے گا۔خدا کو مخصوص اذکار کے ساتھ یاد کرنا اور عدد چالیس کے ساتھ اسکی بہت زیادی سفارش کی گئی ہے ۔جسطرح کہ رات کو جاگنا اور نماز کا پڑہنا لگا تار چالیس رات تک اور نماز وتر کے قنوت میں استغفار کرنا اس بات کا سبب بنتا ہے کہ خداوندمتعال انسان کو جملہ سحر میں استغفارکرنے والےلوگوں کے ساتھ شمار کرے اور خداوند نے قرآن میں انکو نیکی سے یاد کیا ہے ۔ ایک روایت میں نقل ہوا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :لا یجتمع اربعون رجلاًفی امر واحدالّااستجاب اللہ[5] یعنی چالیس مسلمان جمع نہیں ہوتے خدا سےکسی چیز کا چاہنے میں مگر یہ کہ خداوند متعال اسکو قبول کرتا ہے۔
ایک دوسری روایت میں وارد ہوا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے کہ آ نحضرت نےفرمایا:" من اخلص العبادة للہ اربعین صباحاًجرت ینابیع الحکمةمن قلبہ علیٰ لسانہ [6] یعنی اگر کوئی شخص چالیس دن اپنی عبادت صرف اور صر ف خدا کیلئے انجام دے اور اسکا عمل خالص ہو تو خداوند حکمت کے چشمہ اسکے دل سے زبان پر جاری کر دیگا۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک روایت میں نقل ہوا ہے کہ امام نے فرمایا:من حفظ من شیعتنا اربعین حدیثاً بعثہ اللہ یوم القیامة عالماًفقیہاًو لم یعذّب [7] ہمارے شیعوں میں سے اگر کوئی چالیس حدیثوں کو حفظ کرے خداوند متعال اسکو قیامت کے دن عالم، دانشمند اور فقیہ محشور کرے گا۔البتہ اس بات کیطرف توجہ رکھنا ضروری ہے کہ احادیث کو حفظ کرنے سے مرادصرف عبارات ہی کو حفظ کرنا نہیں ہے بلکہ جو چیز طلب کی گئی ہے کہ حدیث کو اسکے پورے لوازمات کیساتھ حفظ کرناہے اور حقیقت میں اس سے مراد حدیث کا سمجھنا اور اس پر عمل کرنا اور اسکا رائج کرنا ہے ۔اسی طرح روایات میں وارد ہوا ہے کہ انسان کی عقل چالیس سال میں کامل ہوتی ہے ۔ امام جعفر صادق علیه السلام سے ایک روایت میں نقل ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا: اذا بلغ العبداربعین سنة قدانتھی منتھاہ [8] حدیث کے معنی یہ ہیں کہ جب انسان چالیس سال کا ہو جاتا ہے تو اسکی عقل کامل ہو جاتی ہے ۔ اسی طرح نماز جماعت کو برپا کرنا اور اسمیں چالیس دن تک شرکت کی سفارش بھی اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک روایت میں نقل ہوا ہے :من صلّی اربعین یوماًفی الجماعة یدرک تکبیرة الاولیٰ کتب اللہ براءتان :براءةمن النار و براءةمن النفاق[9] یعنی وہ شخص جومرتب ابتداءسے نماز جماعت میں شرکت کرے خداوند اسکو دو چیزوں سے محفوظ رکھے گا ایک آتش جہنم دوسرے نفاق اور دوروئی سے ۔آداب دعا میں آیا ہے کہ ا گر آپ چاہتے ہیں کہ آپکی دعا قبول ہو جائے تو پہلے چالیس مومنوں کیلئے دعا کریں اور اسکے بعد خدا سے اپنی حاجت طلب کر یں من قدّم اربعین من المومنین ثمّ دعااستجیب لہ [10] اس روایت میں امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ دعا کرنے سے پہلے دوسرےمومنوں کیلئے دعا کرنا چاہیے۔روایات میں پڑوسیوں اور انکے حقوق کے بارے میں فرمایا ہے کہ پڑوسی چالیس گھر تک شامل ہوتا ہے یعنی جہاں وہ رہتا ہے اس سے ہر طرف سے چالیس گھر تک ۔امام علی علیه السلام نے ایک حدیث میں فرمایا: الجوار اربعون داراًمن اربعة جوانبھا [11] پڑوسی گھر کے ہر طرف سے چالیس گھر تک شامل ہو تا ہے ۔ اسی طرح پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک روایت میں نقل ہوا ہے :انّ السماءوالارض لتبکی علی المومن اذامات اربعین صباحاًو انّما تبکی علیٰ العالم اذا مات اربعین شھراً[12] پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس وقت ایک مومن دنیا سے رحلت کرتا ہے زمین اور آسمان چالیس دن تک اسکے لئے گریہ کرتے ہیں اور اگر کوئی مومن عالم اس دنیا سے رحلت کر جائے تو زمین اور آسمان اسکے فراق میں چالیس ماہ روتے رہتے ہیں ۔امیر المومنین حضرت علی علیه السلام فرماتے ہیں اذا صلیٰ علی المومن اربعون رجلاًمن المومنین واجتھدوا فی الدّعاءلہ استجیب لھم [13] یعنی جس وقت مومنوں میں سے چالیس آدمی کسی مومن کے جنازہ پر نماز پڑہیں اور اسکے لیے دعاکریں تو خداوند متعال ان چالیس آدمیوں کی دعا قبول کرتا ہے ۔یہ ان روایات کا خلاصہ تھا کہ جن میں چالیس کے عدد کا ذکر ہوا ہے ۔واقعی مومن ،اور عالم کا مصداق پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوسرے انبیاءاور آئمّہ طاہرین علیہم السلام ہیں کہ زمین اورآسمان چالیس مہینے انکے فراق میں گریہ کرتے ہیں خاص طور سے امام حسین علیه السلام کی شہادت ایک بہت بڑی مصیبت ہے اور انکی شہادت اس قدر جانگداز ہے کہ روایات کے مطابق ہمیشہ رونا چاہیے۔اس لحاظ سے ایک روایت کہ جس کو محدّث قمی نے منتھی الامال میں ذکر کیا ہے کہ حضرت امام رضا علیہ السلام نے ریّان بن شبیب سے کہا ،ای شبیب کے بیٹے اگر کسی چیز پر رونا چاہتے ہو تو میرے جدّکی مصیبت پر گریہ کروکہ جس کو پیاسا شہید کیا گیا ،یہ بات واضح ہے کہ یہ ساری چیزیں اس وقت ہیں جب رونا معرفت اور اسکے دستورات کی پیروی کے ساتھ ہو ،اور ہمیں چاہیے کہ کربلا کے ہدف اور مقصد کو درک کریں ۔اگر چہ خود رونا اس بات کا سبب بنتا ہے کہ انسان امام علیہ السلام کی معرفت حاصل کرے ،اس لئے کہ اگر امام حسین علیہ السلام قیام نہ کرتےتو اسلام ختم ہو جاتا اور اسکا کوئی اثر باقی نہ رہتا ۔اس بات کا دعوی صرف ہم نہیں کرتے بلکہ مورّخین حتّی وہ جو شیعہ نہیں ہیں وہ بھی اس بات کے معترف ہیں ۔ کربلا کے بعد جو بھی قیام ظلم اور ستم کے مقابلہ میں ہوا ہے اس نے امام حسین علیہ السلام کے قیام سے الہام لیا ہے۔
زیارت اربعین کا ثواب
روایات میں آیا ہے کہ جو شخص اپنے گھر سے زیارت امام حسین کے لیے نکلتا ہے اور وہ پیدل امام کے حرم مطہر کی طرف قدم اٹھاتا ہے اللہ اس کے ہر قدم کے بدلے اسکی ایک بدی کو محو اور اس کی ایک نیکی میں اضافہ فرما دیتا ہے۔ اور اسے صالحین اور مفلحین میں قرار دیتا ہے
1- حَدَّثَنِی أَبِی وَ جَمَاعَةُ مَشَایِخِی عَنْ سَعْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ وَ مُحَمَّدِ بْنِ یَحْیَى وَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ الْحِمْیَرِیِّ وَ أَحْمَدَ بْنِ إِدْرِیسَ جَمِیعاً عَنِ الْحُسَیْنِ بْنِ عُبَیْدِ اللَّهِ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِیِّ بْنِ أَبِی عُثْمَانَ عَنْ عَبْدِ الْجَبَّارِ النَّهَاوَنْدِیِّ عَنْ أَبِی سَعِیدٍ عَنِ الْحُسَیْنِ بْنِ ثُوَیْرِ بْنِ أَبِی فَاخِتَةَ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع یَا حُسَیْنُ مَنْ خَرَجَ مِنْ مَنْزِلِهِ یُرِیدُ زِیَارَةَ قَبْرِ الْحُسَیْنِ بْنِ عَلِیٍّ ص إِنْ کَانَ مَاشِیاً کَتَبَ اللَّهُ لَهُ بِکُلِّ خُطْوَةٍ حَسَنَةً وَ مَحَى عَنْهُ سَیِّئَةً حَتَّى إِذَا صَارَ فِی الْحَائِرِ کَتَبَهُ اللَّهُ مِنَ الْمُصْلِحِینَ الْمُنْتَجَبِینَ [الْمُفْلِحینَ الْمُنْجِحِینَ] حَتَّى إِذَا قَضَى مَنَاسِکَهُ کَتَبَهُ اللَّهُ مِنَ الْفَائِزِینَ حَتَّى إِذَا أَرَادَ الِانْصِرَافَ أَتَاهُ مَلَکٌ فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ص یُقْرِؤُکَ السَّلَامَ وَ یَقُولُ لَکَ اسْتَأْنِفِ الْعَمَلَ فَقَدْ غُفِرَ لَکَ مَا مَضَى.{کامل الزیارات، ص ۱۳۳}
اربعین اور شیعہ
شیعی تہذیب میں اربعین سے مراد امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد چالیسواں دن یعنی صفرالمظفر کی ۲۰ تاریخ ہے چہلم کے موقع پر لوگوں کا امام حسین علیہ السلام کی زیارت کا رجحان قدیم زمانے سے مومنین میں رائج ہے ۔چہلم یا عاشور صرف سال کے دنوں میں سے ایک دن نہیں ،بلکہ یہ لاکھوں لوگوں کی نگاہوں میں امام حسین علیہ السلام کے قیام کی تصویر کھینچ کر رکھ دیتا ہے ۔
بعض روایات کے مطابق۲۰ صفر ۶۱ ہجری امام حسین علیہ السلام کا چہلم منانے کیلئے امام کے سب سے پہلے زائر جابربن عبداللہ انصاری جو رسول خدا کے صحابی ہیں مدینہ منوّرہ سے امام حسین علیہ السلام کی زیارت کیلئے کربلا آئے ہیں ، جابر فرات کے پانی سے غسل کرنے کے بعدغم و اندوہ کی حالت میں امام حسین علیہ السلام کی زیارت کیلئے روانہ ہوئے ۔شیخ طوسی کتاب مصباح المتہجد میں لکھتے ہیں :صفر کا بیسواں دن وہ دن ہے کہ جابر بن عبداللہ انصاری جو کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابی ہیں مدینہ سے امام کی زیارت کیلئے کربلا آئے آپ امام کی قبر کے پہلے زائر ہیں ،اس دن میں امام حسین علیہ السلام کی زیارت مستحب ہے [14] ۔مرحوم شیخ طوسی کی عبارات سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جابر امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے قصد ہی سےمدینہ سے نکلے اور ۲۰ صفر کو کربلا پہنچے ہیں لیکن یہ کہ مدینہ والے کس طرح اور کیسے امام کی شہادت سے مطلع ہوئے کہ جابر نے اپنے آپ کو کربلا پہنچایا؟ تاریخی شواھد کے مطابق ابن زیاد نے اہلبیت کے کوفہ پہنچنے سے پہلے ہی عبدالملک بن ابی الحارث سلمی کو حجاز روانہ کر دیا تھا تا کہ جتنا جلدی ممکن ہو سکے حاکم مدینہ ، امام حسین علیه السلام اور انکے ساتھیوں کی شہادت سے با خبر ہو جائے۔اھلبیت کے کوفہ پہنچنے کےچند دن بعدہی شہر کے لوگ من جملہ مدینہ والے فرزند پیغمبر کی شہادت سے آگاہ ہو گئےتھے۔ اس صورت میں ممکن ہےکہ جابر اس بات سے با خبر ہو گئے ہوں اور اپنے آپ کو کربلا پہنچایا ہو ۔جس وقت آپ مدینہ سے کربلا کیلئے روانہ ہوئے ہیں ضعیفی اور ناتوانی نے انکو پریشان کر رکھا تھا اور بعض روایات کے مطابق آپ نا بینا بھی تھے ۔ لیکن جابر نےلوگوں کو غفلت کی نیند سے بیدار کرنے کیلئے اس کام کو انجام دیا ۔اس زیارت میں جابر کے ہمراہ عطیّہ بھی تھے جو کہ اسلام کی بڑی شخصیتوں ،اور مفسر قرآن کے عنوان سے پہچانے جاتے تھے ۔ اس دن میں زیارت کے سلسلہ میں نزدیک یا دور سے بہت ساری روایتیں نقل ہوئی ہیں ۔
نجف سے کربلا کا پیدل سفر
قدیم الایام سے عراقی شیعوں میں خصوصاً علما ئ نجف میں یہ رواج تھا کے وہ اربعین امام حسین ع کے چہلم کے موقع پر نجف سے کئی دن کا سفر کر کے کربلا پیادہ (پیدل ) جایا کرتے تھے۔
گروہی طور پر نجف سے کربلا پیدل جانے کا یہ سلسلہ مرجع عالی قدر شیخ انصاری کے زمانے سے شروع ہوا لیکن بعد میں اس رسم کو فقرا کے طبقہ سے منسوب سمجھا جانے لگا لیکن بعد میں عالم بزرگوار محدث نوری نے اس رسم کو دوبارہ زندہ کیا ۔[15]
اسی طرح لوگوں میں ان زائرین کی خدمت کا بےمثال جذبہ بھی صدیوں سے جاری و ساری ہے جس نے تمام دنیا کو ورتہ حیرت میں ڈالا ہوا ہے اور ان خدمت گزاروں میں شیعہ علما کی موجودگی کسی سے پوشیدہ نہیں.یہی وجہ ہے کہ ہمیشہ سے مومنین نے اس سنت حسنہ کو قایم رکھا ۔ صدام ملعون کے زمانے میں اس کے شیعوں پر ناروا مظالم کی وجہ سے اس کی رونق میں کمی آگئی لیکن اس زمانے میں بھی عرآق کے مومنین نے اس رسم کو جاری رکھا ۔ صدام کی حکومت کے خاتمے کے بعد لوگوں کا اربعین حسینی پر جوش اور ولولہ کے ساتھ جانا آج کسی کی نظروں سے پوشیدہ نہیں ۔
آج پورے وثوق کے ساتھہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ دنیا میں ہونے والے اجتماعات چاہے وہ مذہبی ہوں یا غیر مذہبی ،ان میں سب سے بڑا اجتماع اسی اربعین حسینی کے موقع پر ہوتا ہے جس میں ساری دنیا سے عشّاق امام حسین ع اپنے امام کی زیارت کے لیے عراق تشریف لاتے ہیں ۔ان زواروں میں سے ایک چشمگیر تعداد نجف سے کربلا پیدل سفر کرتے ہیں ۔اس سفر کے بارے میں بھی ، یہ ادعا غلط نہیں کہ یہ مشی {میم پر زبر }(پیدل چلنا ، پیادہ روی ) معنوی ترین سفر دنیا ہے ۔جو لوگ اس سفر کی سعادت حاصل کر چکے ہیں وہ جانتے ہیں کہ اس مشی میں مرد ،عورتیں ،بوڑھے ، بچے ،مریض ،معذور ،امیر غریب ۔۔۔۔ ہر قسم کے لوگ دیوانہ وار عشق و محبت سے لبریز ماتم و گریہ کرتے ہوے کربلا کی طرف ایک بحر بیکراں کی مانند بڑھ رہے ہوتے ہیں ۔امام ع کا خاص لطف و کرم اپنے ان زائرین پر ایک ابر سایہ دار کی طرح ہمراہ ہوتا جسے ہر با شعور فرد بڑی اسانی سے درک کر سکتا ہے وہاں ہر شخص کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح زائرین کی کوی خدمت کر کے اپنے کو زائرین امام مظلوم ع کے خدمتگزاوں میں شامل کر لے ۔
عراقیوں کی پر خلوص مہمان نوازی کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں ، نجف سے کربلا کے راستے میں مختف سبیلیں اور کیمپ (موکب )مہمانوں کی خدمت کے لیے ۲۴ گھنٹے کارفرما ہوتے ہیں ۔مشی کرنے والے لاکھوں زائرین کے کھانے پینے، سونے نیز انکے راستے میں پیش آنے والی ہر چھوٹی بڑی سہولت مہیا کرنے کے لیے سیکڑوں خاندان اور انجمنیں صبح شام مصروف عمل رہتے ہیں ۔اول تو دنیا کے لیے اس حقیقت کو باور کرنا مشکل ہوتا ہے اور اوپر سے جب انہیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ تمام بیان کردہ چیزیں اور سہولیات بغیر کسی معاوضے کے ہیں تو ان کی حالت قابل دید ہوتی ہے۔
ہماری ذمہ داری
زیارت پر چند دن لے لیے ایک مھدوی معاشرے کی منہ بولتی تصویر دیکھنے کو میسر آتی ہے۔ مشی کے دوران بغیرکسی لالچ کےایک دوسرے کی والہانہ خدمت کا جذبہ ، آپس میں بغیر کسی تنظیمی ،رنگ و نسل کے فرق کےساتھ محبت کا یہ جاری کارواں اس بات کا مظہر ہے کہ ہماری قوم جب ذہنوں پر سے انا پرستی اور دشمن کی تبلیغاتی یلغار کو بھلا کر صرف امام ع کی محبت سے سرشار آگے بڑھتی ہے تو وہ ایک اور متحد ہوتی ہے۔ اس عبادی سفر میں ہماری برپا کردہ مجالس کے بر خلاف امام حسین ع ہمارے میزبان اور ہم ان کے مہمان ہوتے ہیں ۔ ہماری سب کی ،جو اس سفر میں شرکت کرتے ہیں یا وہ جن کے دل اس سفر عشق کے لیے تڑپتے ہیں کوشش ہونی چاہیے کے اس محبت ،بھائی چارگی اور ایک دوسرے کی خدمت کے جذبے اور اس معنویت کو ہمیشہ قائم رکھیں ۔ یہ کیفیت ہمیں اس بات میں مدد دے گی کہ ہم اپنی روز مرہ کی زندگی میں امام حسین ع کے قیام کے مقصد کو بہتر طور پر سمجھیں اور ایسے تمام کاموں سے پرہیز کریں جو فردی زندگی میں ہمارے محّب اہلبیت ع ہونے اور اجتماعی زندگی میں ہمارے مذہب حقّہ پر انگشت نشانی کا باعث بنیں۔
دشمن کی مسلسل یہ کوشش ہے کہ ہمیں اندرونی اور بیرونی اختلافات میں الجھا کر اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب ہو اور ہماری نسلوں کو ہائی جیک کر لے ۔لہذااپنی اور آئیندہ آنے والی نسلوں میں صحیح دین کی بقا کے لیےان علما سے جن کے ذریعے دین ہم تک پنہچا ہے رہنمای لیں اور جن چیزوں سے یہ روکیں ان سے رکیں ۔زمان غیبت میں معصومین ع کی طرف سے ان کو ہمارے اوپر حجت قرار دیا گیا ہے ۔ اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہم سب کو اپنی زندگی می٘ں اپنے امام کی سربراہی میں زیارت امام حسین ع سے فیضیاب فرماے۔ آمین
منبع و مصادر
[1] : احقاف ۵۱
[2] : بحارالانوار،ج۱،ص۸۸،ح۷
[3] : بحار الانوار ج۵۱،ص۸۸۲،ح۵۲
[4] : بحار الانوارج۵۹ص۶۸۳ ح۶۲
[5] : بحارالانوار،ج۳۹، ص۴۹۳، ح۶
[6] : بحارالانوارج۳۵ ،ص۶۲۳، ح۰۲
[7] : بحارالانوارج۲، ص۳۵۱ ، ح۱
[8] : بحارالانوارج۶،ص۲۱، ح ۷
[9] : بحارالانوار ،ج۸۸، ص۴، ح۵
[10] : بحارالانوار ،ج۶۸ ،ص۲۱۲
[11] : بحارالانوار،ج۴۸،ص۳، ح۳
[12] : بحارالانوار،ج۲۴، ص۸۰۳،ح۳۱
[13] : بحارالانوار،ج۱۸،ص۴۷۳،ح۴۲
[14] : شیخ طوسی، مصباح المتہجد ، بررسی تاریخ عاشورہ۔ ص۴۴۲
[15] : آقابزرگ تهرانی، نقباء البشر، ج1، ص349؛ رضا مختاری، سیمای فرزانگان، ص193