عزاداری اور اس کی ترویج میں ہمارا کردار
عزاداری امام حسین ع ، امام حسین کی یاد چاہے وہ جس جائز طریقے سے بھی ہو ہمیں خدا کے نزدیک کر دیتی ہے ۔ یہ عزاداری جو ہمیں اما م سجاد ع اور بی بی زینب سلام اللہ علیھا سے ورثہ میں ملی انسانیت کے لیے وہ تحفہ ہے جو ہمیں اللہ سے نزدیک کرنے کا سب سے بہترین اور آسان ذریعہ ہے ۔ امام کا کوئی کام کوئی کلام حکمت سے خالی نہیں ہوتا ۔ جو روایات ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ جس نے سید الشھدا ع کے غم میں کسی کو رلایا یا رویا اس پر جنت واجب ہے ، حکمت سے خالی نہیں ۔ امام حسین ع نے اللہ کے دین کو بچانے کے لیے اپنی جان ، مال ، اولاد ، ۔۔۔۔ حتی اپنے حرم کی اسیری جیسی قربانی سے بھی دریغ نہیں کیا لہذا اللہ نے ان کے ذکر کو اپنا ذکر قرار دیا ۔امام ع کی یاد اللہ کی یاد ہے ، ان سے محبت اللہ سے محبت ہے یہ اللہ کی معرفت حاصل کرنے کا سب سے نزدیکی ذریعہ ہیں ، آپ باب اللہ ہیں اللہ تک پہنچنے کا دروازہ ۔ سورہ بقرہ کی اس آیہ ۱۸۹ (وَ أْتُوا الْبُیُوتَ مِنْ أَبْوابِها۔۔۔) کی تفسیر میں کچھ روایات[1] نقل ہوئی ہیں کہ جن کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر جگہ پر داخل ہونے کے لیے ایک دروازہ معین ہوتا ہے اور خدا تک پہنچنے کا دروازہ ہم (اھلبیت )ہیں یا بعض روایا ت میں ہے کہ ہم وہ گھر ہیں جس میں داخل ہونے کا خدا نے حکم دیا ہے۔۔۔ ( قَالَ عَلِیٌّ ع نَحْنُ الْبُیُوتُ الَّتِی أَمَرَ اللَّهُ بِهَا أَنْ تُؤْتَى مِنْ أَبْوَابِهَا نَحْنُ بَابُ اللَّهِ ۔۔۔۔۔ بحار الأنوار (ط - بیروت)، ج23، ص: 328)
اگر ہمیں امام حسین ع کی یاد منانی ہے تو اسی طرح منانی ہو گی جیسے کہ امام زین العابدین ع اور دوسرے آئمہ ع نے سکھایا ہے ، امام کی عزاداری کوئی رسم نہیں بلکہ انسانیت کی بقا کی ضامن ہے ۔ اس کا مقصد بھی ہمیں امام ع ہی سے سمجھنا ہو گا ۔ امام حسین ع نے مدینہ سے نکلتے وقت اپنے نکلنے کا مقصد واضح کر دیا تھا ، آپ فرماتے ہیں : «إِنّى لَمْ أَخْرُجْ أَشِرًا وَلا بَطَرًا وَلا مُفْسِدًا وَلا ظالِمًا وَإِنَّما خَرَجْتُ لِطَلَبِ الاِْصْلاحِ فى أُمَّةِ جَدّى، أُریدُ أَنْ آمُرَ بِالْمَعْرُوفِ وَأَنْهى عَنِ الْمُنْکَرِ وَأَسیرَ بِسیرَةِجَدّى وَأَبى عَلِىِّ بْنِ أَبیطالِب»
امام حسین ؑ نے فرمایا : میں نے نہ ہی خود خواہی اور خود پسندی کی وجہ سے ظالم کے خلاف خروج کیا اور نہ ہی میرا قیام ظالمانہ و مفسدانہ ہے بلکہ میں صرف اور صرف اپنے نانا رسولِ خدا ؐ کی امت کی اصلاح کے لیے باہر نکلاہوں۔۔۔۔۔۔
، لہذا ہماری عزاداری کا مقصد بھی وہی ہونا چاہیے جو امام کا مقصد تھا یہی مقاصد عزاداری کی روح ہیں ۔اگر امام ع امت کی اصلاح ، امربالمعروف ، نہی از منکر ، سیرت رسول ص اور سیرت امیر المومنین ع کو زندہ کرنے نکلے تھے تو ہماری عزاداری میں ہمیں یہ تمام چیزیں نظر آنی چاہییں ۔ اگر مجالس میں یہ امور نہ ہوں تو یہ عزاداری روح کے بغیر صرف ایک رسم ہے ۔ مدینہ سے کربلا تک امام ع کے سفر میں جو چیز سب سے زیادہ عیاں نظر آتی ہے وہ اللہ کے کلام سے انسیت ہے ،اب یہ انسیت شب عاشور قرآن کی تلاوت کی مہلت لیتے وقت دیکھیں یا نوک نیزہ پر سر حسین ع کی قرآن کی تلاوت میں نظر آئے۔ راستے بھر جہاں جہاں آپ نے لوگوں سے خطاب کیا اس میں اپنا رسول خدا ص سے رشتہ ، اپنے بارے میں رسول ص کی احادیث ، ظلم کے مقابلے میں مظلوم کی حمایت ۔۔۔۔ نیز اس جیسے بہت سے امور اور اقدار کو لوگوں کے دلوں می دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کی جو اللہ کی نزدیکی کا باعث ہوں ۔امام ع کی ہم سے راضی ہونا ان کی مرضی قطعا اللہ کی مرضی کے مخالف نہیں ۔ امام ع ہم سے وہی چاہتے ہیں جو اللہ ہم سے چاہتا ہے ، لہذا امام ع کے نام پر کوئی غیر شرعی فعل یا اگر ہم اللہ کے دین اور احکام کے خلاف کوئی کام بھی انجام دیں تو روز حشر امام ع کی شفاعت ہمارے شامل حال قرار نہیں پائے گی ۔ امام ع فرماتے ہیں : مَنْ کَانَ لِلَّهِ مُطِیعاً فَهُوَ لَنَا وَلِیٌّ وَ مَنْ کَانَ لِلَّهِ عَاصِیاً فَهُوَ لَنَا عَدُو( الکافی (ط - الإسلامیة)، ج2، ص: 75) ۔ جو اللہ کا مطیع ہے وہ ہمارا دوست ہے اور جو عاصی (اللہ کے احکام کی مخالفت کرنے والا) ہے وہ ہمارا دشمن ہے۔
ایک اور جگہ امام ع فرماتے ہیں َ إِنَّ شَفَاعَتَنَا لَنْ تَنَالَ مُسْتَخِفّاً بِالصَّلَاةِ. (بحار الأنوار (ط - بیروت)، ج79، ص: 236) ہماری شفاعت ہرگز اس کے شامل حال نہ ہو گی جو نماز کو سبک سمجھے ۔
معصومین ع نے اپنے شیعوں کی کچھ نشانیاں بیان کی ہیں فرماتے ہیں :
أَنَّ شِیعَتَنَا هُمُ الَّذِینَ یَتَّبِعُونَ آثَارَنَا، وَ یُطِیعُونَّا فِی جَمِیعِ أَوَامِرِنَا وَ نَوَاهِینَا، فَأُولَئِکَ [مِنْ] شِیعَتِنَا.
ُ إِنْ کُنْتَ تَعْمَلُ بِمَا أَمَرْنَاکَ وَ تَنْتَهِی عَمَّا زَجَرْنَاکَ عَنْهُ فَأَنْتَ مِنْ شِیعَتِنَا وَ إِلَّا فَلا
خلاصہ یہ کہ صرف نام لینے ، زبانی محبت کے اظہار یا اپنے پورے جسم پر شیعہ ، محب اھلبیت کا لیبل لگانے سے ہم شیعہ نہیں بنتے بلکہ ان کے کردار ، نظریات ، افکار اور سیرت پر صحیح عمل ہم کو ان کا شیعہ بناتا ہے۔
آج اگر ہم اپنی بعض مجالس پر غور کریں تو دیکھیں گے کہ قرآن کی آیت صرف سرنامہ کلام کی حد تک محدود ہوگئی ہے۔ اگر ہمارا بہت زور چلے تو روایات میں سے صرف وہ روایات ہم بیان کرتے ہیں جو فضایل سے مربوط ہوتی ہیں ، ہم اسکے منکر نہیں لیکن بعض نادان دوست دانستہ یا نادانستہ غلط قسم کے غیر اسلامی اور انحرافی افکار جو ناصرف مسلمانوں میں بلکہ خود شیعوں میں اختلاف اور فتنہ کا باعث بن رہے ہیں ، ان کی ترویج کر رہے ہیں ۔ درد اس بات کا ہے وہ علی جو علم کا بحر بیکراں تھا ، آئمہ جنہوں نے علوم کے خزانے ہم تک پہنچانےمیں اپنی زندگیاں قید و بند میں گزار دیں، ہم انکی روایات میں موجود پوشیدہ علم کو استخراج کرنا تو دور کی بات انکو بیان بھی نہیں کرتے۔ لیکن جب کوئی یورپین کسی نئی سائنسی تحقیق کا انکشاف کرتا ہے تو ہم مدعی بن جاتے ہیں کہ اسکا تو ہمارے رسول(ص) نے، ہمارے امام نے ۱۴۰۰ سال پہلے ہی اشارہ کر دیا تھا ، اے کاش ہم اہلبیت ع کے فرامین سے سروکار رکھتے اور سائنسی تحقیقات کے نتائیج آنے سے پہلے ہم نے ان سائنسی اور علمی روایا ت پر کام کرتے اور انہیں دنیا والوں کے سامنے پیش کرتے تو آج نتاَیج کچھ اور ہوتے ۔
ایک زمانہ تھا مسلمان مختلف علوم میں موجد کی حیثیت رکھتے تھے اور جابر بن حیان، بوعلی سینا، ابو ریحان نیز ایسے دوسرے بہت سے عالم گذرے جو سرمایہ اسلام تھے لیکن ہم نے ان کی قدر نہ کی۔ اور جابر بن حیان جیسی شخصیت جسکا نہ کسی شیعہ نہ کسی سنی علم رجال کی کتاب میں ذکر ہوا ، امام کا یہ ہونہار شاگرد جب اس دنیا سے گیا تو بطور صوفی پہچانا گیا۔ ۶۰۰ سال تک صوفی اسکی قبر کی مجاورت کرتے رہے۔ جب اٹلی و فرانس نے اسکی کتابوں کا ترجمہ کیا اور اسکے علوم کو ترویج دی تو مسلمان جاگے اور سب نےا س پر اپنا ہونے کے دعویٰ شروع کر دیے ،یہی برتاَو دوسرے بزرگ علماء کے ساتھ بھی ہوا۔
اکثر مسلمان جو کسی زمانے میں آئیڈیل اور نمونہ ہوا کرتے تھے، آج ترجمہ کرنے والے، وارد import ))کرنے والے، مصرف کرنے والے تقلید کرنے والے۔۔۔۔۔ بن کر رہ گئے ہیں۔
ہمارے تضاد فکری نے دوسرے مکتب فکر کے افراد کو ہماری مجالس میں آنے سے روک دیا۔
لمحہ فکریہ ہے کہ یہی افراد آج سے ۲۵ یا ۳۰ سال پہلے ہماری مجلسوں میں عقیدت و احترام کے ساتھ شرکت کیا کرتے تھے ،لیکن آج نہ صرف شرکت کرنے سے کتراتے ہیں بلکہ اس عزاداری کے دشمن بھی ہو گئے ہیں۔
اگر اس طرح کہوں تو شاید غلط نہ ہو،کہ وہ ہمارے یا آئمہ(ع) کے دشمن نہیں تھے لیکن ہمارے طرز فکر ، ہمارے چبھتے ہوئے اور رکیک کنایات باعث بنے کہ وہ اس عزاداری کے ہی دشمن ہوگئے۔
ہم نے اپنی بعض مجالس میں من گھڑت جنت کے نسخوں کو پیش کیا جس کے نتیجے میں اپنی قوم کو عمل سے اور دوسروں کو اپنی مجالس سے دور کر دیا۔جبکہ ہمارا یہ طرز بیان قرآن اور معصومین(ع) کی تعلیمات کے صریحاً مخالف ہے۔ خدا وند اپنے رسول ص سے فرماتا ہے :
فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللَّهِ لِنتَ لَهُمْ ۖ وَلَوْ کُنتَ فَظًّا غَلِیظَ الْقَلْبِ لَانفَضُّوا مِنْ حَوْلِکَ [3]۔۔۔۔
(اے رسول(ص)) یہ اللہ کی بہت بڑی مہربانی ہے کہ تم ان لوگوں کے لیے اتنے نرم مزاج ہو۔ ورنہ اگر تم درشت مزاج اور سنگدل ہوتے تو یہ سب آپ کے گرد و پیش سے منتشر ہو جاتے۔
اسی طرح جب اللہ نے حضرت موسی ٰ اور ہارون ع کو فرعون کی طرف بھیجا تو فرمایا :
اذْهَبَا إِلَىٰ فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَىٰ ۔ فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَّیِّنًا لَّعَلَّهُ یَتَذَکَّرُ أَوْ یَخْشَىٰ [4]
تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ کہ وہ سرکش ہوگیا ہے۔ اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا کہ شاید وہ نصیحت قبول کرے یا ڈر جائے۔
اور جب رسول(ص) ،جو کہ رحمۃ للعالمین کا بدرجہ اتم مصداق تھے مدینہ میں تشریف لائے تو وہاں کے اہل کتاب کو اللہ کا یہ پیغام دیا جو سورہ آل عمران آیہ ۱۱۳ سے ۱۱۵ میں آیا ہے:
لَیْسُوا سَوَاءً ۗ مِّنْ أَهْلِ الْکِتَابِ أُمَّةٌ قَائِمَةٌ یَتْلُونَ آیَاتِ اللَّهِ آنَاءَ اللَّیْلِ وَهُمْ یَسْجُدُونَ [5]
یہ لوگ سب برابر نہیں ہیں۔ اہل کتاب میں ایسی ثابت قدم جماعت بھی ہے جو رات کے مختلف اوقات میں آیاتِ الٰہی کی تلاوت کرتی ہے۔ اور سجدہ ریز ہوتی ہے۔
یُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَیَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَیُسَارِعُونَ فِی الْخَیْرَاتِ وَأُولَٰئِکَ مِنَ الصَّالِحِینَ [6]
اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں اور بھلائی کے کاموں میں تیزی کرتے ہیں اور یہ لوگ نیک لوگوں میں سے ہیں۔
وَمَا یَفْعَلُوا مِنْ خَیْرٍ فَلَن یُکْفَرُوهُ ۗ وَاللَّهُ عَلِیمٌ بِالْمُتَّقِینَ [7]
یہ جو نیکی بھی کریں گے اس کی ہرگز ناقدری نہیں کی جائے گی۔ اور خدا پرہیزگاروں کو خوب جانتا ہے
💥 اما م حسین علیہ السلام وارث انبیاء علیہم السلام
· جب ہم کہتے ہیں علی(ع) و اولاد علی (ع) رسول ص کے وارث ہیں تو اس سے مراد فقط مالی وراثت نہیں ہوتی بلکہ جب ہم حسین(ع) کو" السلام علیک یا وارِثَ محمدٌ رسول اللہ " یا انبیا کا وارث کہہ کر خطاب کرتے ہیں تو مرادوراثت معنوی ہوتی ہے ۔ گویا کہ حسین(ع) تمام انبیاء کی علمی و معنوی میراث کے وارث ہیں۔ اور وراثت معنوی میں کچھ ملتا نہیں بلکہ دینا پڑتا ہے۔ اپنی جان، مال، اولاد۔۔۔۔
جہاں تک اپنے حقوق کے تلف ہونے کا تعلق تھا حسین(ع) بہت شفیق، رحمدل، درگذر کرنے والے انسان کا نام تھا۔ لیکن جہاں بات خدا اور اسکے دین کی تھی وہاں حسین(ع) نے کسی سے سمجھوتہ نہیں کیا۔
اسی حسین(ع) کے بیٹے میرے مولا سجاد(ع) کے پاس جب حضرت علی اکبر ع کا قاتل حلیہ بدل کر پناہ لیتا ہے تو آپ مہمانداری میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے بلکہ وقت رخصت اسکو بدرقہ کرکے رخصت کرتے ہیں۔ آخر کیوں یہ دشمن امام کی پناہ میں آیا؟
اسلیے کہ امام سجاد(ع) کے محبّوں نے، انکے دوستوں نے آپ کی شخصیت کو ایک رحم دل، ایک شفیق، ایک معاف کردینے والےانسان کی حیثیت سے متعارف کروایاتھا۔
لیکن ہم جب اپنے مولا، اپنے سرور، امام زمانہ(عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کا تعارف کراتے ہیں تو فقط ’’منتقم‘‘ کی حیثیت سے کراتے ہیں حتی حدّ تو اس وقت ہوجاتی ہے جب بعض مومنین ایک دوسرے سے گلے ملتے وقت اپنے دوست کی گردن پر یہ کہہ کر بوسہ دیتے ہیں کہ یہاں امام زمانہ کی تلوارچلے گی۔۔۔ (استغفر اللہ ربی و اتوب الیہ)
ہمارے اس انداز سے امام ع کا تعارف کروانے کی وجہ سے ،اگر آپ آج کے نوجوانوں سے بات کریں تو اسمیں سے بعض بہت سچائی سے یہ کہنےمیں دریغ نہیں کرتے کہ ہم دعا امام زمانہ تو پڑھتے ہیں لیکن دل کے ایک گوشہ میں یہ احساس چھپا ہے کہ ابھی تو ظہور نہ ہی کریں۔! !!!کہیں ایسا نہ ہو ہم بھی ان لوگوں میں شامل ہوں جن پر امام کی تلوار چلے گی۔
ہم نے ایک ایسی فضا قائم کر دی ہے کہ جس سے اہلبیت ع کا آفاقی پیغام ہد ایت صرف شیعوں میں محدود ہو کر رہ گیا اور دوسرے مکاتب فکر اس سے محروم ہو کر رہ گئے۔ حق بات یہ ہےآج کے تکفیری اور افراطی گروہ جو درندگی کی نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں انکہ وجود میں آنے کے علل و اسباب پر ایک نظر کی جائے تو جہاں استعمار ی دسیسہ کاریاں نظر آَئیں گی وہاں اپنوں کی نادانیوں سے بھی چشہم پوشی نہیں کی جاسکتی !!!!
تاریخ پر نظر ڈالیں تو دیکھتے ہیں کہ شاگردان آئمہ میں دوسرے مذاہب کے لوگ بھی شامل تھے جو اپنی آخری عمر تک اپنے ہی عقیدے اور دین پر قائم رہے ۔
جس جگہ امام باقر و صادق علیہم السلام درس دیا کرتے تھے وہیں ابوحنیفہ بھی درس دیا کرتے۔۔۔وہیں امام کاظم(ع) اپنے چاہنے والوں کو سیراب کیا کرتے تھے۔
امام عسکری(ع)، امام تقی (ع) نے اپنے زندگی کا اکثر حصہ اہل سنت علاقوں میں گزارا اور آپ نے ایسے اخلاق نبوی کا مظاہرہ کیا کے وہاں کے لوگ آپ کے گرویدہ ہو گئے(اگر مقالہ کے طولانی ہونے کا اندیشہ نہ ہوےا تو ضرور یہاں چند نمونوں کا تذکرہ کرتے ) ان کے حرم بھی انہیں علاقوں میں ہیں۔ ان کے حرم کی تولیت اور حرم کے مجاورت بھی ایک زمانے تک انہیں کے ہاتھ میں تھی۔
ہر حق بات ہر جگہہ کہنے کی نہیں ہوتی قرآن بھی اسی بات کی طرف ہماری رہنماِئی کر رہا ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلَا تَسُبُّوا الَّذِینَ یَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ فَیَسُبُّوا اللَّهَ عَدْوًا بِغَیْرِ عِلْمٍ ۔۔[8]
اور خبردار تم لوگ انہیں برا بھلا نہ کہو جن کو یہ لوگ خدا کو چھوڑ کر پکارتے ہیں کہ اس طرح یہ دشمنی میں بغیر سمجھے بوجھے خدا کو برا بھلا کہیں گے ۔۔۔۔
جس طرح حسین(ع) وارث انبیا ہیں، آئمہ(ع) نے اس بار کو اپنےد وش پر اٹھایا انہوں نے ہی فرمایا کہ :
’’العلما وَرَثَۃُ الانبیا‘‘
یہ میراث انبیا ءجس کا وارث بننا حسین(ع) کے علاوہ کسی اور کے بس میں نہیں تھا۔ اسی طرح اس میراث کی حقیقت کھول کر لوگوں کے سامنے بیان کرنا بھی سب کے لیے ممکن نہ تھا۔ لہذا حسین(ع) نے اپنے وارثوں کو اسکی حفاظت کا طریقہ اور اس کی تبلیغ کا ڈھنگ بھی سکھا دیا۔
یہ میراث جس طرح خون انبیا سے وجود میں آئی، خون شہدا اور خون حسین(ع) کے ذریعے سے محفوظ ہوئی ،خون ہی کے طفیل آگے بڑہے گی۔
جس وقت امام حسین (ع) اس میراث کو بچانے کے لیے قیام کر رہے تھے اس وقت مدینہ میں بڑی بڑی بزرگوار ہستیاں موجود تھیں لیکن تماشا دیکھتی رہیں۔ امام حسین(ع) نے ان کو بتادیا کہ تماشائی کبھی بھی وارث نہیں بن سکتا۔
صرف اور صرف امام کے غم کو منانا ، ان پر سال میں کچھ دن آنسو بہا دینا۔۔۔۔ کیا ہمیں اس فریضہ سے سبکدوش کر دیتا ہے جو ایک شیعہ ہونے کے ناطے ہماری گردنوں پر عائد ہوا ہے؟؟؟ کب تک ہم صرف اپنے گناہوں کی بخشش کے لیے امام کی مجالس میں شرکت کریں گے؟؟
ہمیں صرف یہ نہیں دیکھنا کہ امام حسین ع کے ساتھ اور ان کے خاندان کے ساتھ کیا ہوا اور انہیں کیسے شھید کیا گیا ،بلکہ ساتھ یہ بھی دیکھنا اور سوچنا ہے کہ امام حسین کو کیوں شھید کیا گیا اور امام حسین ع نے اتنی عظیم قربانی کس مقصد کے لیے دی۔
کیا نمازِ شاہ تھی، ارکانِ ایمانی کے ساتھ
دل بھی جھک جاتا تھا ہر سجدے میں پیشانی کے ساتھ
صرف رو لینے سے قوموں کے نہیں پھرتے ہیں دن
خوں فشانی بھی ہے لازم اشک افشانی کے ساتھ
آنکھ میں آنسو ہوں، سینوں میں شرارِ زندگی
موجۂ آتش بھی ہو، بہتے ہوئے پانی کے ساتھ
جوش ہم ادنیٰ غلامانِ علیِ مرتضیٰ
تمکنت سے پیش آتے ہیں جہانبانی کے ساتھ
[1] : قَالَ عَلِیٌّ ع نَحْنُ الْبُیُوتُ الَّتِی أَمَرَ اللَّهُ بِهَا أَنْ تُؤْتَى مِنْ أَبْوَابِهَا نَحْنُ بَابُ اللَّهِ وَ بُیُوتُهُ الَّتِی یُؤْتَى مِنْهُ فَمَنْ تَابَعَنَا وَ أَقَرَّ بِوَلَایَتِنَا فَقَدْ أَتَى الْبُیُوتَ مِنْ أَبْوابِها وَ مَنْ خَالَفَنَا وَ فَضَّلَ عَلَیْنَا غَیْرَنَا فَقَدْ أَتَى الْبُیُوتَ مِنْ ظُهُورِها-: