حضرت فاطمہ زھرا س کا خطبہ غرّہ{فدکیہ}
انھوں نے دین اسلام کی تبلیغ کی اور لوگوں کو عذاب الٰھی سے ڈرایا، اور شرک پھیلانے والوں کا سد باب کیا ان کی گردنوں پر شمشیر عدالت رکھی اور حق دبانے والوں کا گلا دبا دیا تا کہ شرک سے پرھیز کریں اور توحید و عدالت کو قبول کریں۔
اپنی وعظ و نصیحت کے ذریعہ خداکی طرف دعوت دی، بتوں کو توڑا اور ان کے سروں کو کچل دیا،کفار نے شکست کھائی اور منھ پھیر کر بھاگے، کفر کی تاریکیاں دور هوگئیں اورحق مکمل طور سے واضح هوگیا، دین کے رھبر کی زبان گویا هوئی اور شیاطین کی زبانوں پر تالے پڑ گئے، نفاق کے پیرو کار ھلاکت و سر گردانی کے قعر عمیق میں جا گرے کفر و اختلاف اور نفاق کے مضبوط بندھن ٹکڑے ٹکڑے هوگئے۔
(اور تم اھل بیت (ع) کی وجہ سے) کلمہ شھادت زبان پر جاری کرکے لوگوں کی نظروں میں سرخ رو هوگئے ، در حالانکہ تم دوزخ کے دھانے پر اس حالت میں کھڑے تهے کہ جیسے پیاسے شخص کے لئے پانی کا ایک گھونٹ اور بھو کے شخص کے لئے روٹی کا ایک تر لقمہ، اور تمھارے لئے شعلہ جہنم اس راہ گیر کی طرح جستجو میں تھا جو اپنا راستہ تلاش کرنے کے لئے آگ کی راہنمائی چاھتا ہے۔
تم قبائل کے نحس پنجوں کی سخت گرفت میں تهے گندا پانی پیتے تهے اور حیوانوں کو کھال سمیت کھا لیتے تهے، اور دوسروں کے نزدیک ذلیل و خوار تهے اور اردگرد کے قبائل سے ھمیشہ ھراساں تهے۔
یھاں تک خدا نے میرے پدر بزرگوار محمدمصطفےٰ (ص) کے سبب ان تمام چھوٹی بڑی مشکلات کے باوجود جو انھیں در پیش تھی، تم کو نجات دی، حالانکہ میرے باپ کو عرب کے بھیڑئے نما افراد اور اھل کتاب کے سرکشوں سے واسطہ تھا ”لیکن جتنا وہ جنگ کی آگ کو بھڑ کا تے تهے خدا اسے خاموش کر دتیا تھا“ اور جب کو ئی شیاطین میں سے سر اٹھاتا یا مشرکوں میں سے کوئی بھی زبان کھولتا تھا تو حضرت محمد اپنے بھائی (علی) کوان سے مقابلہ کے لئے بھیج دیتے تهے، اور علی (ع) اپنی طاقت و توانائی سے ان کو نیست و نابود کردیتے تهے اور جب تک ان کی طرف سے روشن کی گئی آگ کو اپنی تلوار سے خاموش نہ کردیتے میدان جنگ سے واپس نہ هوتے تهے۔
وہ، علی (ع)، جو اللہ کی رضاکے لئے ان تمام سختیوں کا تحمل کرتے رہے اور خدا کی راہ میں جھاد کرتے رہے، رسول اللہ (ص) کے نزدیک ترین فرد اور اولیاء اللہ کے سردار تهے ھمیشہ جھاد کے لئے آمادہ اور نصیحت کرنے کے لئے جستجو میں رھتے تهے، لیکن تم اس حالت میں آرام کے ساتھ خوش و خرم زندگی گزارتے تهے، (اور ھمارے لئے کسی بری) خبرکے منتظر رھتے تهے اور دشمن کے مقابلہ سے پرھیز کرتے تهے نیز جنگ کے وقت میدان سے فرار هوجایا کرتے تهے ۔
جب خدا نے اپنے رسولوں اور پیغمبروں کی منزلت کو اپنے حبیب کے لئے منتخب کرلیا، تو تمھارے اندر کینہ اور نفاق ظاھر هوگیا، لباس دین کہنہ هوگیا اور گمراہ لوگوں کے سِلے منھ گھل گئے، پست لوگوں نے سر اٹھالیا، باطل کا اونٹ بولنے لگا اور تمھارے اندر اپنی دم ھلانے لگا، شیطان نے اپنا سر کمین گاہ سے باھر نکالا اور تمھیں اپنی طرف دعوت دی، تم کو اپنی دعوت قبول کرنے کے لئے آمادہ پایا ، وہ تم کو دھوکہ دینے کا منتظر تھا، اس نے ابھارا اور تم حرکت میں آگئے اس نے تمھیں غضبناک کیا، تم غضبناک هوگئے وہ اونٹ جو تم میں سے نھیں تھا تم نے اسے علامت دار بناکر اس جگہ بٹھادیا جس کا وہ حق دار نہ تھا، حالانکہ ابھی پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی موت کو زیادہ وقت نھیں گزرا تھا اور ھمارے زخم دل نھیں بھرے تهے، زخموں کے شگاف بھرے نھیں تهے، ابھی پیغمبر (ص) کو دفن بھی نھیں کیا تھا کہ تم نے فتنہ کے خوف کے بھانے سے خلافت پر قبضہ جمالیا۔
”لیکن خبردار رهو کہ تم فتنہ میں داخل هوچکے هو اور دوزخ نے کافروں کا احاطہ کرلیا ہے “۔
افسوس تمھیں کیا هوگیا ہے اور تم نے کونسی ڈگر اختیار کرلی ہے حالانکہ اللہ کی کتاب تمھارے درمیان موجود ہے اور اس کے احکام واضح اور اس کے امر و نھی ظاھر ھیں تم نے قرآن کی مخالفت کی اور اسے پس پشت ڈال دیا، کیا تم قرآن سے روگردانی اختیارکرنا چاھتے هو؟ یا قرآن کے علاوہ کسی دوسری چیز سے فیصلہ کرنا چاھتے هو؟
”ظالمین کے لئے کس قدر برا بدلا ہے“
” جو شخص اسلام کے علاوہ کسی دوسرے دین کو اختیا رکریگا اس کا دین قبول نھیں کیا جائیگا اور آخرت میں ایسا شخص سخت گھاٹے میں هوگا ۔“
تم خلافت کے مسئلہ میں اتنا بھی صبر نہ کر سکے کہ خلافت کے اونٹ کی سرکشی خاموش هوجائے اور اس کی قیادت آسان هوجائے (تاکہ آسانی کے ساتھ اس کی مھار کو ھاتھوں میں لے لو) اس وقت تم نے آتش فتنہ کو روشن کردیا اور اس کے ایندھن کو اوپر نیجے کیا (تاکہ لکڑیاں خوب آگ پکڑلیں) اور شیطان کی دعوت کو قبول کرلیا اور دین کے چراغ اور سنت رسول (ص) کو خاموش کرنے میں مشغول هوگئے، تم ظاھر کچھ کرتے هو لیکن تمھارے دلوں میں کچھ اور بھرا هوا ہے۔
میں تمھارے کاموں پر اس طرح صبر کرتی هوں جس طرح کسی پر چھری اور نیزے سے پیٹ میں زخم کردیا جاتا ہے، اور وہ اس پر صبر کرتا ہے ۔
تم لوگ گمان کر تے هو کہ ھمارے لئے ارث نھیں ہے، ؟! ” کیا تم سنت جاھلیت کو نھیں اپنا ر ہے هو ؟!!
” کیا یہ لوگ (زمانہ) جاھلیت کے حکم کی تمنا رکھتے ھیں حالانکہ یقین کرنے والوں کے لئے حکم خدا سے بھتر کون هوگا۔“
کیا تم نھیں جا نتے کہ صاحب ارث ھم ھیں، چنانچہ تم پر روز روشن کی طرح واضح ہے کہ میں رسول کی بیٹی هوں، اے مسلمانو! کیا یہ صحیح ہے کہ میں اپنے ارث سے محروم رهوں (اور تم میری خاموشی سے فا ئدہ اٹھاکر میرے ارث پر قبضہ جمالو۔)
اے ابن ابی قحافہ ! کیا یہ کتاب خدا میں ہے کہ تم اپنے باپ سے میراث پاؤ ور ھم اپنے باپ کی میراث سے محروم رھیں، تم نے فدک سے متعلق میرے حق میں عجیب و غریب حکم لگایا ہے، اور علم و فھم کے با وجود قرآن کے دامن کو چھوڑدیا، اس کو پس پشت ڈال دیا؟
کیا تم نے بھلادیا کہ خدا قرآن میں ارشاد فرماتا ہے
<وورث سلیمان داود> ”جناب سلیمان نے جناب داود سے ارث لیا“
، اور جناب یحیٰ بن زکریا کے بارے میں ارشاد هوتا ہے کہ انهوں نے دعا کی:
”بارِ الہٰا ! اپنی رحمت سے مج ہے ایک فرزند عنایت فرما، جو میرا اورآل یعقوب کا وارث هو“، نیز ارشاد هوتا ہے: ” اور صاحبان قرابت خدا کی کتاب میں باھم ایک دوسرے کی (بہ نسبت دوسروں ) زیادہ حق دار ھیں۔“ اسی طرح حکم هوتا ہے کہ ” خدا تمھاری اولاد کے حق میں تم سے وصیت کرتا ہے کہ لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے “ ۔
نیز خداوند عالم نے ارشاد فرمایا:
”تم کو حکم دیا جاتا ہے کہ جب تم میں سے کسی کے سامنے موت آکھڑی هو بشرطیکہ وہ کچھ مال چھوڑ جائے تو ماں باپ اور قرابت داروں کے لئے اچھی وصیت کرے ، جو خدا سے ڈرتے ھیں ان پر یہ ایک حق ہے۔“
کیا تم گمان کرتے هو کہ میرا اپنے باپ سے کوئی رشتہ نھیں ہے اور مجهے ان سے میراث نھیں ملے گی ؟
کیا خداوند عالم نے ارث سے متعلق آیات کو تم ھی لوگوں سے مخصوص کردیا ہے؟ اور میرے باپ کو ان آیات سے الگ کر دیا ہے ؟یا تم کھتے هو کہ میرا اور میرے باپ کا دو الگ الگ ملتوں سے تعلق ہے ؟ لہٰذا ایک دوسرے سے ارث نھیں لے سکتے۔
آیا تم لوگ میرے پدر بزرگوار اور شوھر نامدار سے زیادہ قرآن کے معنیٰ و مفاھیم ، عموم و خصوص اور محکم و متشابھات کو جانتے هو ؟
تم نے فدک اور خلافت کے مسئلہ کو اونٹ کی طرح مھار کرلیا ہے اور اس کو آمادہ کرلیا ہے جو قبر میں تمھاری ساتھ ر ہے گا اور روز قیامت ملاقات کرے گا ۔
اس روز خدا بھترین حاکم هوگا اور محمد بھترین زعیم ، ھمارے تمھارے لئے قیامت کا دن معین ہے وھاںپر تمھارا نقصان اور گھاٹا آشکار هوجائےگا اور پشیمانی اس وقت کوئی فائدہ نہ پهونچائے گی،” ھر چیزکے لئے ایک دن معین ہے“ ۔ ” عنقریب ھی تم جان لو گے کہ عذاب الٰھی کتنا رسوا کنندہ ہے ؟ اور عذاب بھی ایسا کہ جس سے کبھی چھٹکارا نھیں“۔
حضرت فاطمہ کا انصار سے خطاب
اس کے بعد انصارکی طرف متوجہ هوئیں اورفرمایا:
اے اسلام کے مددگار بزرگو! اور اسلام کے قلعوں، میرے حق کو ثابت کرنے میں کیوں سستی برتتے هو اور مجھ پر جو ظلم و ستم هو رھا ہے اس سے کیوں غفلت سے کام لے ر ہے هو ؟! کیا میرے باپ نے نھیں فرمایا تھا کہ کسی کا احترام اس کی اولاد میں بھی محفوظ رھتا ہے ( یعنی اس کے احترام کی وجہ سے اس کی اولاد کا احترام بھی هوتا ہے؟)
تم نے کتنی جلدی فتنہ برپا کردیا ہے اور کتنی جلدی هوا و هوس کے شکار هوگئے! تم اس ظلم کو ختم کرنے کی قدرت رکھتے هو اور میرے دعوی کو ثابت کرنے کی طاقت بھی۔
یہ کیا کہہ ر ہے هو کہ محمد مرگئے ! (اور ان کا کام تمام هوگیا) یہ ایک بھت بڑی مصیبت ہے جس کا شگاف ھر روز بڑھتا جا رھا ہے اور خلاء واقع هو رھا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جانے سے زمین تاریک هوگئی اور شمس و قمر بے رونق هوگئے، ستارے مدھم پڑ گئے، امیدیں ٹوٹ گئیں، پھاڑوں میں زلزلہ آگیا اور وہ پاش پاش هوگئے ھیں ، حرمتوں کا پاس نھیں رکھا گیا اور پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت کے وقت ان کے احترام کی رعایت نھیں کی گئی۔
خدا کی قسم یہ ایک بھت بڑی مصیبت تھی جس کی مثال دنیا میں نھیں مل سکتی۔
یہ اللہ کی کتاب ہے جس کی صبح و شام تلاوت کی آواز بلند هو رھی ہے اور انبیاء علیھم السلام کے بارے میں اپنے حتمی فیصلوں کے بارے میں خبر دے رھی ہے اور اس کے احکام تغیر ناپذیر ھیں (جیسا کہ ارشاد هوتا ہے) :
”اور محمد (ص) صرف خدا کے رسول ھیں، ان سے پھلے بھی دوسرے پیغمبر موجود تهے، اب اگر وہ اس دنیا سے چلے جائیں، یا قتل کردئے جائیں تو کیا تم دین سے پھر جاوٴگے، اور جو شخص دین سے پھر جائے گا وہ خدا کو کوئی نقصان نھیں پهونچا سکتا، خدا شکر کرنے والوں کو جزائے خیر دیتا ہے“ ۔
اے فرزندان قیلہ ( اوس و خزرج) کیا یہ مناسب ہے کہ میں اپنے باپ کی میراث سے محروم رهوں جبکہ تم یہ دیکھ ر ہے هو اور سن رہے هو اور یھاں حاضر بھی هو اور میری آواز تم تک پهونچ بھی رھی ہے اور تم واقعہ سے با خبر بھی هو، تمھاری تعداد زیادہ ہے، تمھارے پاس طاقت و اسلحہ بھی ہے، اور میں تم کو اپنی مدد کے لئے پکار رھی هوں، لیکن تم اس پر لبیک نھیں کھتے، میری فریادکو سن ر ہے هو مگر فریاد رسی نھیں کرتے هو، تم بھادری میں معروف اور نیکی سے موصوف اور خود نخبہ هو ، تم ھی ھم اھلبیت (ع) کے لئے منتخب هوئے، تم نے عربوں کے ساتھ جنگیں لڑیں، سختیوں کو برداشت کیا، مختلف قبیلوں سے جنگ کی، سو رماوں سے زورآزمائی کی، جب ھم قیام کرتے تهے تو تم بھی قیام کرتے تهے ھم حکم دیتے تهے اور تم اطاعت کرتے تهے ۔
یھاں تک کہ اسلام نے رونق پائی اور نعمتیں اور خیرات زیادہ هوئےں، مشرکین کے سر جھک گئے، ان کا جھوٹا وقار و جوش ختم هوگیا، اور کفر کے آتش کدے خاموش هوگئے، شورش اور شور و غل ختم هوگیا اور دین کا نظام مستحکم هوگیا۔
اے گروہ انصار: متحیر هوکر کھاں جار ہے هو ؟! حقائق کے معلوم هونے کے بعد انھیں کیوں چھپاتے هو، اور قدم آگے بڑھانے کے بعد پیچ ہے کیوں ہٹا ر ہے هو، اورایمان لانے کے بعد مشرک کیوں هو ر ہے هو ؟
” بھلا تم ان لوگوں سے کیوں نھیں لڑتے جھنوں نے اپنی قسموں کو توڑ ڈالا ہے اور رسول کا شھر بدر کرنا چاھتے ھیں، اور تم سے پھلے پھل چھیڑ بھی انھوں نے ھی شروع کی تھی کیا تم ان سے ڈرتے هو ،حالانکہ کہ اگر تم سچے ایماندار هو تو تمھیں صرف خدا سے ڈرنا چاہئے ۔“
میں دیکھ رھی هوں کہ تم پستی کی طرف جار ہے هو جو شخص لائق حکومت تھا اس کو برکنار کردیا اورتم گوشہ نشینی اختیار کرکے عیش وعشرت میں مشغول هو،زندگی کے وسیع وعریض میدان سے فرار کرکے راحت طلبی کے تنگ وتار ماحول میں پھنس گئے هو، جو کچھ تمھارے اندرتھا اسے ظاھر کردیااور جوپی چکے تهے اسے اگل دیا، ”لیکن آگاہ رهو اگرتم اور روئے زمین پرآباد تمام انسان کافرهوجائیںتو خدا تمھارا محتاج نھیں ہے ۔“
اے لوگو! جو کچھ مجہے کہناچاہئے تھا سوکہہ دیا، چونکہ میں جانتی هوں کہ تم میری مددنھیں کروگے، تم لوگ جو منصوبے بناتے هو مجھ سے پوشیدہ نھیںھیں، دل میں ایک درد تھا جس کو بیان کردیاتاکہ تم پرحجت تمام هوجائے اب فدک اورخلافت کوخوب مضبوطی سے پکڑے رکھو،لیکن یہ بھی جان لو کہ اس راہ میں بڑی دشواریاں ھیں اور اس”فعل “کی رسوائیاں اورذلتیں ھمیشہ تمھارے دامن گیر رھیں گی۔
خدا اپنا غیظ وغضب زیادہ کریگا اوراس کی سزا جہنم هوگی،” خدا تمھارے کردارسے آگاہ ہے بھت جلد ستمگاراپنے کئے هوئے اعمال کے نتائج دیکھ لیں گے“
اے لوگو! میں تمھارے اس نبی کی بیٹی هوںجس نے تمھیں خدا کے عذاب سے ڈرایا،اب جو کچھ تم لوگ کرسکتے هو کرو، ھم اس کا ضرور انتقام لیں گے تم بھی منتظر هو ، ھم بھی منتظرھیں۔
حضرت فاطمہ کا انصار سے خطاب کے آثار
آپ کے اس خطبہ کا اثرلوگوں پر خاص طور سے انصارپر بھت هوا، کیونکہ یہ خطبہ واقعیت اور صداقت پر مبنی تھا اور اس خطبہ میں قرآن کریم اور سنت نبوی سے دلائل پیش کئے گئے تهے کہ حضرت پر کیا کیا ظلم وستم هوئے، اس خطبہ میں حضرت علی علیہ السلام کی فضیلت بیان کی گئی اور باقاعدہ دلیلوں کے ذریعہ یہ ثابت کیا گیا کہ آپ ھی خلافت رسول کے حقدار تهے، اور جس وقت انصار پر اس خطبہ کا اثر هوا تو حضرت علی کا نام لے لےکر چلانا شروع کیا، چنانچہ یہ دیکھ کر اھل سقیفہ نے خطرہ کا احساس کیا اور ابوبکر نے نماز جامعہ کی طرف بلایا جس پر سب دوڑے هوئے چلے گئے۔
جوھری نے جعفر بن محمد بن عمارہ سے متعدد طریقوںسے روایت کرتے هوئے کھا : جب جناب ابوبکر نے حضرت زھرا سلام اللہ علیھا کا خطبہ سنا تو اس پر بھت گراں گزرا، چنانچہ منبر پر جاکر اس طرح لوگوں سے خطاب کیا :
”یہ سب کچھ جو تم لوگوں نے سنا ، اور چونکہ ھربات کا ایک مقصد هوتا ہے، اور یہ بات زمانہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں کھاں تھی؟ پس جس نے بھی سنا هو وہ بتائے اور جس نے بھی دیکھا هو وہ گواھی دے، یہ سب کچھ مکروفریب ہے اور اس کا گواہ اس کا شوھر ہے، جو ھر فتنہ کی جڑ ہے، وہ یہ کھتے ھیں کہ یہ لوگ حق وحقیقت کو پانے کے بعد زمان جاھلیت کی طرف پلٹ گئے ، اور وہ بچوں حسن و حسین (ع) کے ذریعہ مدد لیتے ھیں اور عورتوں کے سھارے نصرت ومدد چاھتے ھیں جس طرح امّ طحال (زمان جاھلیت میں باغی اور سرکش عورت) سے اس کے اھل خانہ اس کی نازیبا حرکتوں سے خوش هوتے ھیں۔!!
آگاہ رهو کہ اگر میں چاھتا تو کھتا، او راگر کھتا تو تم مبهوت هوکر رہ جاتے، لیکن میں تو اس وقت ساکت بیٹھا هوں۔
اس کے بعد انصار کی طرف متوجہ ہوکر کھا:
” اے گروہ انصار ! تم لوگوں میں سے بعض احمقوں کی گفتگومجھ تک پهونچی جو کھتے ھیں: ”ھم عھد رسول اللہ میں زیادہ حقدار تهے، کیونکہ ھم نے تم کو پناہ دی اور تمھاری نصرت کی، اور تم آج اپنے کو زیادہ حقدار سمجھتے هو ، لیکن میں تمھاری باتوں کو چھوڑتا هوں اور ان کا کوئی اثر نھیں لیتا، اور نہ ھی مج ہے کسی چیز کا لالچ ہے، مگر یہ کہ جس چیز کا میں مستحق هوں، والسلام“۔
اس کے بعد منبر سے اتر گیا۔
اس کی باتیں سن کر جناب فاطمہ وھاں سے اپنے گھر کی طرف روانہ هوگئیں۔
علی لعنۃ اللہ علی قوم الظالمین