جناب حمزہ کی تین ہجری کو ۶۰ سال کی عمر میں شہادت ہوئی ، سب سے پہلے سیدالشہداء کا لقب جناب حمزہ کو ملا لیکن امام حسین(علیہ ا لسلام)کی شہادت کے بعد یہ لقب آپ سے مخصوص ہوگیا۔
جناب حمزہ کے قاتل کا نام وحشی تھا (جو جبیر بن معطم کا غلام تھا )جو بعد میں ایمان لے آیا تھا اور اس نے توبہ کرلی تھی، اس نے آپ کی کمر میں پیچھے سے تلوار یا نیزہ مارا جس کی وجہ سے آپ زمین پر گر گئے اور شہید ہوگئے ، اس نے جناب حمزہ کے جگر کو سینہ سے باہر نکال کر معاویہ کی ماں ہندہ ملعونہ کے پاس لایا، ہندہ نے دشمنی کی وجہ سے آپ کے جگر کو دانتوں میں دبایا اور ہندہ جگر خوارہ کے نام
جناب حمزہ کی تین ہجری کو ۶۰ سال کی عمر میں شہادت ہوئی ، سب سے پہلے سیدالشہداء کا لقب جناب حمزہ کو ملا لیکن امام حسین(علیہ ا لسلام)کی شہادت کے بعد یہ لقب آپ سے مخصوص ہوگیا۔
ابن بلیھد قاضی القضاة وہابین کا شمار مدینہ کے علماء میں ہوتا تھااس نے ۱۳۴۴ ہجری میں ائمہ بقیع کی قبور کو منہدم کرنے کا فتوی لیا اور اس دن اس نے ائمہ بقیع کے روضہ کو منہدم کیا ، کتاب منتخب التواریخ میں روح و ریحان کتاب سے نقل ہوا ہے کہ ائمہ بقیع کے قبہ کو جناب مجد الملک ابوالفضل اردستانی نے بنوایا تھا (حوادث الایام، ص ۲۳۱).
عید فطر {نامکمل}
دوسری ہجری قمری میں عید فطر کے دو یا تین دن باقی تھے جب پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ) نے لوگوں کو حکم دیا کہ اپنا اپنا فطرہ نکالو ، اس سال زکات فطرہ پہلی مرتبہ واجب ہوئی ، عید فطر کے دن پیغمبر کرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے حکم سے لوگ عید فطر پڑھنے کیلئے صحرا کی طرف نکلے اور اس سال نماز عید فطر پہلی مرتبہ واجب ہوئی ۔پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ)نے اسلحہ (ہتھیار) کے عنوان سے عصا کو اپنے ہاتھ میں لیا اس عصا کے سرے پر لوہا لگا ہوا تھا (حوادث الایام، ص ۲۲۵)۔
انہدام قبور ائمہ بقیع{نامکمل}
ابن بلیھد قاضی القضاة وہابین کا شمار مدینہ کے علماء میں ہوتا تھااس نے ۱۳۴۴ ہجری میں ائمہ بقیع کی قبور کو منہدم کرنے کا فتوی لیا اور اس دن اس نے ائمہ بقیع کے روضہ کو منہدم کیا ، کتاب منتخب التواریخ میں روح و ریحان کتاب سے نقل ہوا ہے کہ ائمہ بقیع کے قبہ کو جناب مجد الملک ابوالفضل اردستانی نے بنوایا تھا (حوادث الایام، ص ۲۳۱).
بقیع میں موجود عمارتوں اور گنبدوں کو پہلی بار سنہ ۱۲۲۱ ہجری قمری میں وہابیوں نے منہدم کر دیا تھا جسے عبدالحمید دوم سلطان عثمانی نے دوبارہ مرمت کروایا لیکن 8 شوال سنہ ۱۳۴۴ ہجری قمری کو مدینہ کے حاکم امیرمحمد نے اپنے باپ عبدالعزیز آل سعود کے حکم سے ان گنبدوں کو دوبارہ ویران کر دیا۔
امام حسن (علیہ السلام) کی ولادت با سعادت
شیعوں کے دوسرے امام حضرت حسن بن علی (علیہ السلام) کی پندرہویں رمضان ۳/ ہجری کو مدینہ میں ولادت ہوئی ، خدا وند عالم نے جبرئیل کو حکم دیا کہ پیغمبر اکرم کے گھر میں ایک بیٹا پیدا ہوا ہے لہذا زمین پر جاؤ اور ان کو سلام و مبارکباد کہو اور کہو کہ علی کی تم سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسی سے تھی اور اس کے بعد اس کا نام ہارون کے بیٹے کا نام رکھو(ہارون کے بیٹے کا نام شبر تھا جس کو عربی میں حسن کہتے ہیں) امام حسن سر سے سینہ تک پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے مشابہ تھے ، آپ کا نام نامی حسن، کنیت ابومحمداور القاب نقی، زکی، سبط، مجتبی، امین، سید ، بر، حجت وغیرہ تھا (حوادث الایام، ص ۱۹۷) ۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
(مفاہیم و ترجمہ قرآن کریم )کی کلاس میں داخل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں. اس کے بعد Enter as a Guest پر کلک کر کے کلاس میں داخل ہوں۔کتاب کو مندرجہ ذیل لنک سے ڈاونلوڈ کیا جا سکتا ہے ۔(مفاہیم و ترجمہ قرآن کریم کی کتاب) .کلاس کی رکارڈنگ سننے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کریں۔
والسلام
سید رضا حسین رضوی.