Saturday, 9 August 2014، 07:08 PM
جنگ احد
بھی اپنا لشکر لیکر وہاں تشریف لے آئے ، جنگ شروع ہوگئی ، کچھ مشرکین نے کمین گاہ سے مسلمانوں کی پشت پر حملہ کیا اور عبداللہ بن عمرو بن حزام انصاری (جابر کے والد) کو ایک گروہ کے ساتھ شہید کردیا کچھ مسلمان فرار کر گئے اور کچھ مسلمانوں نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو اپنے حصار میں لے لیا ، مشرکین نے رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ) کو اپنے محاصرہ میں لے کر شمشیر اور تیروں سے حملہ کردیا اور یہ حملہ اتنا سخت تھا کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا دندان م بارک پتھر لگنے کی وجہ سے ٹوٹ گیا اور نیچے کا ہونٹ بھی زخمی ہوگیا اور ایک پتھر آپ کی پیشانی پر لگا جس سے آپ کی پیشانی سے خون جاری ہوگیا اور تلوار کا ایک وار بھی آپ کے جسم مبارک پر لگا لیکن آنحضرت (ص)نے ان کے لئے بددعا نہیں کی اور خدا سے عرض کیا : پروردگارا! اس قوم کو بخش دے کیونکہ یہ لوگ ناسمجھ ہیں ہیں۔
اس جنگ میں بہت سے مسلمان شہید ہوگئے ، مشرکین نے شیطانی آواز بلند کی ”محمد قتل ہوگئے ہیں“ جب مسلمانوں نے یہ آواز سنی تو راہ فرار اختیار کی لیکن آنحضرت (ص) فرمارہے تھے: میں رسول خدا ہوں ، زندہ ہوں، کہاں فرار رکرہے ہو۔
اس وقت تن تنہا حضرت علی (علیہ السلام)، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی حفاظت کررہے تھے اور آپ سے دفاع کررہے تھے ، یہاں تک کہ آپ کے سارے جسم پر نوے (۹۰) زخم لگے ، اس وقت آسمان سے آواز آئی ”لا فتی الا علی لا سیف الا ذوالفقا“ خلاصہ یہ کہ مشرکین کا لشکر شیر خدا کے سامنے تاب نہ لا سکا اور فرار کرنے پر مجبور ہوگیا ۔ اس جنگ میں مسلمانوں کے ستر افراد شہید ہوئے جن میں سب سے افضل و اعظم جناب حمزہ تھے (۱)۔
۱۔ حوادث الایام، ص ۲۳۵۔
اس جنگ میں بہت سے مسلمان شہید ہوگئے ، مشرکین نے شیطانی آواز بلند کی ”محمد قتل ہوگئے ہیں“ جب مسلمانوں نے یہ آواز سنی تو راہ فرار اختیار کی لیکن آنحضرت (ص) فرمارہے تھے: میں رسول خدا ہوں ، زندہ ہوں، کہاں فرار رکرہے ہو۔
اس وقت تن تنہا حضرت علی (علیہ السلام)، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی حفاظت کررہے تھے اور آپ سے دفاع کررہے تھے ، یہاں تک کہ آپ کے سارے جسم پر نوے (۹۰) زخم لگے ، اس وقت آسمان سے آواز آئی ”لا فتی الا علی لا سیف الا ذوالفقا“ خلاصہ یہ کہ مشرکین کا لشکر شیر خدا کے سامنے تاب نہ لا سکا اور فرار کرنے پر مجبور ہوگیا ۔ اس جنگ میں مسلمانوں کے ستر افراد شہید ہوئے جن میں سب سے افضل و اعظم جناب حمزہ تھے (۱)۔
۱۔ حوادث الایام، ص ۲۳۵۔
14/08/09