حضرت زهرا سلام الله علیها کی ولادت با سعادت
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا اور سورہ دہر
فریقین کے بعض تفسیری اور حدیثی علماء سےمنقول ہے کے مطابق مکمل سورہ دہر اصحاب کساء اور اطعام اصحاب کساء ( حضرت رسول اکرم ص، علی علیہ السلام ، حسن علیہ السلام ،حسین علیہ السلام ،اور زہراء سلام اللہ علیہا) کی شان و منزلت کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ یُوفُونَ بِالنَّذْرِ وَیخَافُونَ یُوْمًا کَانَ شَرُّهُ مُسْتَطِیرًا۔ وَیُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْکِینًا وَیتِیمًا وَأَسِیرًا۔ إِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لَا نُرِیدُ مِنْکُمْ جَزَاءً وَلَا شُکُورًا۔[5]
ترجمہ :نیک لوگ اپنے عہدونذر کے ساتھ وفا کرتے ہیں اور خداوند کی محبت کی خاطر فقیر ،اسیر ،اور یتیم کو کھانا دیتےہیں اور ( کہتے ہیں) ہم صرف خداوند کی رضا کی خاطر آپ کوکھانا دیتے ہیں اور آپ سے کوئی اجر اور مزد وری طلب نہیں کرتے ہیں ۔
ابن عباس کہتے ہیں :
شیعہ و سنی دونوں کی کتابوں میں یہ روایت موجود ہے کہ ایک مرتبہ حسنین علیہما السلام بیمار ہوئے ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والیہ وسلم ان کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے اور ان کی حالت دیکھ کر بہت رنجیدہ ہوئے ۔ آپ نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا کہ کیا اچھا ہو کہ اگر ان بچوں کی صحت کے لئے نذر مانی جائے!
حضرت علی علیہ السلام نے بچوں کے صحت یاب ہونے پر تین روز روزہ رکھنے کی نذر مانی ، حضرت زہرا سلام الله علیہا اور گھر کی کنیز نے بھی یہی نذر کی۔
حسنین علیہما السلام کے شفایاب ہونے پر نذر کو پورا کیا گیا ۔ حضرت علی علیہ السلام، حضرت زہرا سلام الله علیہا اور جناب فضہ نے روزہ رکھا۔ حضرت علی علیہ السلام کے گھر میں افطا رکے لئے کچھ نہ تھا ۔ حضرت کا ایک پڑوسی اون کا کاروبار کرتا تھا لوگ اس سے خام مال لے جاتے اور اون تیار کرکے دیتے تھے اور اس کام کے بدلے اپنے کام کی مزدروی حاصل کرتے تھے۔ حضرت بھی اس کے پاس گئے اوراس سے اس معاملہ پر کچھ جَو حاصل کئے کہ اس کی قیمت کے برابر حضرت زہرا سلام الله علیہا اس کے لئے اون تیار کریں گی۔
جَو کو پیس کر افطار کے لئے کچھ روٹیاں تیار کی گئیں۔ افطار کا وقت قریب آیا اور اب حضرت علی علیہ السلام کے مسجد سے گھر پلٹنے کا انتظار ہونے لگا ۔ جب حضرت علی علیہ السلام گھر تشریف لائے تو دسترخوان بچھایا گیا ، تمام اہل بیت اور جناب فضہ دسترخوان پر آکر بیٹھ گئے، اس بابرکت دسترخوان پر فقط چار روٹیاں رکھی ہوئی تھیں ابھی کسی نے روٹی کی طرف ہاتھ بھی نہ بڑھایا تھا کہ کسی نے دروازہ پر آکر آواز دی اے اہل بیت نبوت :آپ پر میرا سلام ہو، میں ایک مسکین ہوں آپ جو کھا رہے ہیں اس میں سے مجھے بھی دیدیجئے خدا آپ کو جنت کے کھانوں سے سیر فرمائے۔ یہ سن کر دسترخوان پر رکھی ہوئی روٹیاں اٹھا کر سائل کے حوالے کردی گئیں اور اہل بیت نے پانی سے افطار کیا۔ دوسرے اور تیسرے دن بھی حضرت زہرا سلام الله علیہا نے روٹیاں تیار کیں اور پہلے دن کی طرح ہی یتیم و اسیر کو دے کر پانی سے افطار کرکے بھوکے سو گئے۔اسی دوران جبرئیل امین اہل بیت کی شان میں سورہٴ دہر لے کر نازل ہوئے۔[6]
جب تک قرآن باقی رہے گا اور اس کی تلاوت ہوتی رہے گی اور سورہٴ دہر کی آیتوں کو پڑھا جاتا رہے گا اہل بیت علیہم السلام کا یہ افتخار دنیا کے سامنے نمایاں ہوتا رہے گا۔
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شادی
ان ذاتی کمالات کے علاوہ سب سے بڑھ کر یہ تھا کہ آپ پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی تھیں۔ اس لئے بہت سے اشراف عرب آپ سے شادی کے متمنی تھے ۔
ابھی حضرت زہرا سلام الله کی شادی نہیں ہوئی تھی کہ پیغمبر اسلامﷺ اور مسلمانوں کو مکّہ سے ہجرت کرنی پڑی اور وہ مدینہ جاکر آبادہوگئے۔ وہاں پر حضرت علی علیہ السلام، پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے گھر میں رہتے تھے اور آپ کی عمر بیس سال ہو چکی تھی۔ آپ پیغمبر اسلام ﷺ پر ایمان لانے والے سب سے پہلے انسان تھے اور آپ کی ذات اتنے کمالات کامرکز تھی کہ لوگ ان کی وجہ سے آپ سے حسد کرنے لگے تھے۔ آپ اپنے کمالات کی بنا پر تمام انسانوں میں اس طرح نمایاں تھے جیسے آسمان پر سورج نمایاں رہتا ہے۔
حضرت علی علیہ السلام و حضرت زہرا سلام الله علیہا دونوں ایک خاندان سے تھے تو کیا حضرت زہرا کے لئے حضرت علی علیہ السلام سے ، اور حضرت علی علیہ السلام کے لئے حضرت زہرا سلام الله علیہا سے بہتر شریک حیات ہو سکتا تھا؟ نہیں ہر گز نہیں۔ تو پھر کیا وجہ تھی کہ حضرت علی علیہ السلام نے پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے سامنے فاطمہ زہرا سلام الله علیہا سے شادی کی تمنا ظاہر نہیں کی؟
کچھ روایتوں میں ملتا ہے کہ آپ نے اپنی غربت کی وجہ سے ایسا نہیں کیا۔ لیکن یہ بات بالکل غلط ہے ۔ کیونکہ حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے :”اگر الله نے حضرت علی علیہ السلام کو پیدا نہ کیا ہوتا تو حضرت زہرا کا کوئی کفو نہ ہوتا۔“ ابن مسعود سے روایت ہے کہ پیغمبر اسلام نے فرمایا: ”الله نے مجھے فاطمہ کی شادی علی ؑ کے ساتھ کرنے کا حکم دیا ہے ۔“ کچھ بھی ہو ایک دن ایسا آہی گیا کہ حضرت علی علیہ السلام نے پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے سامنے اس تمنا کا اظہار فرمایا ۔
امام صادق علیہ السلام عَیْنًا یَشْرَبُ بِهَا عِبَادُ اللَّهِ یُفَجِّرُونَهَا تَفْجِیرًا کی تفسیر میں فر ماتے ہیں یہ چشمہ رسول خدا ﷺ کے گھر میں ہے جب کہ اس جگہ سے انبیاء اور مومنین کے گھروں کی طرف جاری ہو جائے گا ۔
صحیفہ سجادیہ سے اقتباس
وَاجْعَلِ التَّوْبَةَ فى اَطْوَلِهِما بَقآءً. وَ اِذا هَمَمْنا بِهَمَّیْنِ یُرْضیکَ اَحَدُهُما عَنّا، وَ یُسْخِطُکَ الْاخَرُ عَلَیْنا، فَمِلْ بِنا اِلى ما یُرْضیکَ عَنّا، وَ اَوْهِنْ قُوَّتَنا عَمّا یُسْخِطُکَ عَلَیْنا۔[7]
ترجمہ :بارالہا ؛ توبہ کو ہمارے لیے باقی رکھنا اور عفو و بخشش کو ہمارے دین میں بادوام بنا ، اگر ہم دو ایسے کاموں کا ارادہ کرتے ہیں کہ جن میں سے ایک تجھے ہم سے خوشنودکرتا ہے اور دوسرا تیرے غضب کا باعث بنتا ہے تو پس جو تیری رضا کا سبب ہے ہمیں اس کی طرف ترغیب دے اور وہ کام جو تیرے غضب کا باعث ہےاس سے ہماری ہمت کو کم کردے ۔
مصادرکا تعارف
1- ادعیهالسیده فاطمهالزهراء علیهاالسلام ادعیتهاالشامله-سیرتها...، دخیل،محمدتقی، انتشارات بقیةالعتره قم،،۱۴۲۷ه ق.
2- الکلمه = کلمه الغراء فی تفضیلالزهراء سلامالله علیها و علی ابیهاو بعلها و بنیهاالمعصومین، شرفالدین، عبدالحسین، تحقیق محمدرضا المامقانی،انتشارات دلیل ما،قم،1427ه ق.
3- فضائل فاطمة الزهراء فی ذکر الحکیم، (عربی)، علی حیدر مؤید، قم، کتابخانه حیدریه، چاپ اوّل، 1380 ش، 530 صفحه
[1] ۔ امالی, صدوق، ص 474، ح 18۔
[2] ۔ بحارالانوار، مجلسی،محمدباقر،ج 43، باب 2، أسمائها و بعض فضائلها علیهاالسلام.
[3] ۔ زندگینامه چهارده معصوم (علیهم السلام)، آیت الله حسین مظاهرى، ص 37 .
[4] ۔ایضا ، ص 37.
[5] ۔ دهر,7-9
[6] ۔ کشاف, محمود زمخشری، ج4، ص169و روح المعانی، آلوسی,سیدمحمود,ج15، ص174
[7]- متن صحیفه سجادیه همراه با ترجمه استاد حسین انصاریان،دعای 9،ص 69