تبلیغی فاصلاتی نظام

اس بلاگ میں قرآن و اھلیبیت علیھم السلام اور ان سے متعلق دوسرے علوم کے بارے میں مضامین اور مطالب قارئین کی خدمت میں پیش کیئے جائیں گے۔

تبلیغی فاصلاتی نظام

اس بلاگ میں قرآن و اھلیبیت علیھم السلام اور ان سے متعلق دوسرے علوم کے بارے میں مضامین اور مطالب قارئین کی خدمت میں پیش کیئے جائیں گے۔

تبلیغی فاصلاتی نظام
قرآن وعلوم قرآن و اهلبیت...
Thursday, 25 December 2014، 02:01 PM

امام رضا ع کی شھادت

 

نفس پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

ایک دفعہ مامون نےایک  علمی محفل  میں حضرت  امام رضا علیہ السلام  اور دیگر علما کو دعوت دی ۔وہاں اس نے حضرت  امام رضا علیہ السلام  سے پوچھا : ما الدلیل  علی خلا فۃ جدک؟  آپ کے پاس آپ کے جد کی خلافت  کی کیا دلیل ہے؟ آپ  علیہ السلا م نے فرمایا:آیت مباہلہ : فَمَنْ حَاجَّکَ فِیهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَکَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَکُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَکُمْ وَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْکَاذِبِینَ» [2]  میں لفظ «أنفسنا» اس بات کی نشاندہی کرتا ہے۔مامون بولا:«لولا نسائنا» آپ نے جواب دیا :«لولا أبنائنا» جسے سن کر مامون خاموش ہو گیا ۔گیا۔[3]

یہی مطلب   کتاب " عیون اخبار رضا علیہ السلام" میں اس طرح ذکر ہوا ہے: «فَقَالَتِ الْعُلَمَاءُ فَأَخْبِرْنَا هَلْ فَسَّرَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ الِاصْطِفَاءَ فِی الْکِتَابِ؟ فَقَالَ الرِّضَا(ع): فَسَّرَ الِاصْطِفَاءَ فِی الظَّاهِرِ سِوَى الْبَاطِنِ فِی اثْنَیْ عَشَرَ مَوْطِناً وَ مَوْضِعاً، فَأَوَّلُ ذَلِکَ قَوْلُهُ عَزَّوَجَلَ: «وَ أَنْذِرْ عَشِیرَتَکَ الْأَقْرَبِینَ‏ وَ رَهْطَکَ الْمُخْلَصِینَ» ... وَ الْآیَةُ الثَّانِیَةُ فِی الِاصْطِفَاءِ قَوْلُهُ عَزَّوَجَلَ: «إِنَّما یُرِیدُ اللَّهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیراً» ... وَ أَمَّا الثَّالِثَةُ فَحِینَ مَیَّزَ اللَّهُ الطَّاهِرِینَ مِنْ خَلْقِهِ فَأَمَرَ نَبِیَّهُ بِالْمُبَاهَلَةِ بِهِمْ فِی آیَةِ الِابْتِهَالِ فَقَالَ عَزَّوَجَلَّ: یَا مُحَمَّدُ «فَمَنْ حَاجَّکَ‏ فِیهِ مِنْ بَعْدِ ما جاءَکَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعالَوْا نَدْعُ أَبْناءَنا وَ أَبْناءَکُمْ وَ نِساءَنا وَ نِساءَکُمْ وَ أَنْفُسَنا وَ أَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْکاذِبِینَ»‏ فَبَرَزَ النَّبِیُّ(ص) عَلِیّاً وَ الْحَسَنَ وَ الْحُسَیْنَ وَ فَاطِمَةَ(ع) وَ قَرَنَ أَنْفُسَهُمْ‏ بِنَفْسِهِ. فَهَلْ تَدْرُونَ مَا مَعْنَى قَوْلِهِ: «وَ أَنْفُسَنا وَ أَنْفُسَکُمْ»؟‏ قَالَتِ الْعُلَمَاءُ: عَنَى بِهِ نَفْسَهُ، فَقَالَ أَبُوالْحَسَنِ(ع): لَقَدْ غَلِطْتُمْ، إِنَّمَا عَنَى بِهَا عَلِیَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ(ع) وَ مِمَّا یَدُلُّ عَلَى ذَلِکَ قَوْلُ النَّبِیِّ(ص) حِینَ قَالَ: لَیَنْتَهِیَنَّ بَنُو وَلِیعَةَ أَوْ لَأَبْعَثَنَّ إِلَیْهِمْ رَجُلًا کَنَفْسِی، یَعْنِی عَلِیَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ(ع) وَ عَنَى بِالْأَبْنَاءِ الْحَسَنَ وَ الْحُسَیْنَ(ع) وَ عَنَى بِالنِّسَاءِ فَاطِمَةَ(س) فَهَذِهِ خُصُوصِیَّةٌ لَا یَتَقَدَّمُهُمْ فِیهَا أَحَدٌ وَ فَضْلٌ لَا یَلْحَقُهُمْ فِیهِ بَشَرٌ وَ شَرَفٌ لَا یَسْبِقُهُمْ إِلَیْهِ خَلْقٌ إِذْ جَعَلَ نَفْسَ عَلِیٍّ(ع) کَنَفْسِه‏؛[4]

محفل میں موجود علماءنے پوچھا: یہ بتائیے خدا نے "انتخاب" کے بارے میں اپنی کتاب میں  کچھ تفسیر کی ہے؟ حضرت نے فرمایا: انتخاب کے بارے میں خدا نے بارہ مقامات پر  تفسیر فرمائی ہے، جو  ان موارد  کے علاوہ ہیں جو  باطن اور تاویل کے بارے میں آئے ہیں۔

پہلا مقام : آیه شریفه: «وَ أَنْذِرْ عَشِیرَتَکَ الْأَقْرَبِینَ‏ [و رهطک المخلصین‏]»2[5]" اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے۔۔۔۔

انتخاب کے بارے میں  دوسری آیۃ: «إِنَّما یُرِیدُ اللَّهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ‏-۔۔۔ الآیة»[6] خدا چاہتا ہے کہ آپ اہلبیت کو ہر نجاست اور پلیدی  سے دور کر دے۔

تیسری آیت: جب خدا نے اپنی پاک مخلوق کو جدا کیا  اور آیۃ مباہلہ میں  اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کو حکم دیاکہ مباہلہ کو ان لوگوں کے ساتھ انجام دیں، تو فرمایا:اے محمد! ! «فَمَنْ حَاجَّکَ فِیهِ مِنْ بَعْدِ ما جاءَکَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعالَوْا نَدْعُ أَبْناءَنا وَ أَبْناءَکُمْ وَ نِساءَنا وَ نِساءَکُمْ وَ أَنْفُسَنا وَ أَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْکاذِبِینَ‏»[7]

"آپ کے پاس علم آ جانے کے بعد بھی اگر یہ لوگ (عیسیٰ کے بارے میں ) آپ سے جھگڑا کریں تو آپ کہہ دیں : آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ، ہم اپنی خواتین کو بلاتے ہیں اور تم اپنی عورتوں کو بلاؤ، ہم اپنے نفسوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے نفسوں کو بلاؤ، پھر دونوں فریق اللہ سے دعا کریں کہ جو جھوٹا ہو اس پر اللہ کی لعنت ہو"

اس حکم کے بعد حضرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے حضرت علی، حسن، حسین ،فاطمہ علیہم السلام کو گھر سے لیا  اور ان کو اپنے ساتھ لے کر چلے ، جانتے ہو اس جملے کا مطلب کیا ہے"تم اپنے  نفسوں کو اور  ہم اپنے  نفسوں کو" ؟علماء نے جواب دیا:یہاں  رسو ل کی نظر  میں خود اپنی  ذات مراد ہے۔حضرت نے فرمایا:  یہاں پر تم غلطی  پر ہو  ،یہاں رسول کی مراد علی بن ابی طالب علیه السلام تھے اور اس بات کی دلیل  حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا وہ جملہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم  نے فرمایا: "یہ بنو  ولیعہ اپنے  کاموں سے باز آجائیں ورنہ میں اپنے جیسا ایک شخص ان کی طرف روانہ کروں گا۔۔" یہاں پر بھی  رسو ل اکرم  کی مراد علی بن ابی طالب علیه السلام تھے، اور :"ابناء" سے مراد  آیۃ میں   حضرت امام حسن و حسین علیہم السلام ہیں اور "نساء" سے مراد حضرت فاطمہ علیہا السلام کی ذات گرامی ہے۔یہ ایسی خصوصیت ہے جس میں آپ کا کوئی ثانی نہیں  ہے ،یہ ایسی فضیلت ہے جس پر کوئی  بشر نہیں پہنچ سکتا ،ایسا  شرف ہے  کہ کوئی  اس پر سبقت نہیں لے جا سکتا، یہ سب  اس لیے ہےکہ حضرت  رسول صلی اللہ علیہ وآلہ  وسلم  نے  حضرت علی علیه السلام کے نفس کو اپنے نفس کی مثل قرار دیا۔

اہل بیت علیہم السلام کا  عذاب الٰہی سے نجات کی  ضمانت ہونا

روایت میں ہے:

"حدّثنا محمّد بن موسی بن المتوکّل ـ رضی الله عنه ـ قال: حدّثنا ابوالحسین محمّد بن جعفر الأسدی، قال: حدّثنا محمّد بن الحسین الصولی (الصوفی)، قال: حدّثنا یوسف بن عقیل عن اسحاق بن راهویة، قال: لما وفی ابوالحسن الرضا (علیه السلام) نیسابور و اراد أن یخرج منها الی المأمون، إجتمع علیه اصحاب الحدیث فقالوا له: «یا ابن رسول الله! ترحل عنّا ولا تحدّثنا بحدیث فنستفیده منک؟» وکان قد قعد فی العماریة فاطلع رأسه و قال: «سمعت ابی موسی بن جعفر یقول: سمعت ابی جعفر بن محمّد یقول: سمعت ابی محمّد بن علی یقول: سمعت ابی علی بن الحسین یقول: سمعت ابی الحسین بن علی بن ابی طالب یقول: سمعت ابی امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب یقول: سمعت رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم یقول: سمعت جبرئیل یقول: سمعت الله جل جلاله یقول: لا إله إلا الله حصنی فمن دخل حصنی امن من عذابی». قال: فلمّا مرّت الراحلة نادانا «بشروطها و انا من شروطها"[8]

اسحاق بن راہویہ کہتا  ہے:جب حضرت امام رضاعلیہ السلام نیشاپور سے نکل رہے تھے  تو   محدثین آپ کےگرد جمع ہو گئے اور  درخواست کی کہ ہم سے جدا ہونے سے پہلے ایسی حدیث ہمیں تعلیم دیں جو ہماری دنیا اور آخرت کے لیے سودمند ہو؟۔

حضرت امام رضاعلیہ السلام نے کجاوہ سے اپنے چہرہ اقدس کو باہر نکالا اور فرمایا:میرے والد موسیٰ ابن جعفرنے فرمایا: میرےوالد جعفر بن محمد  فرماتے تھےکہ میں نے اپنےوالدؐمحمد بن علی سےانہوں نے اپنے والد علی بن حسین سے انہوں نے حسین بن علی سے اور انہوں نے  اپنے والد علی بن ابی   طالب سے انہوں نے رسول خداسے اور رسول نے جبرئیل سے ، جبرئیل نےکہا  خداوند جل جلالہ فرماتا ہے: : "لا إله إلا الله میرا قلعہ ہے ،جو اس قلعہ میں داخل ہو جائے وہ میرے عذاب سے امان میں ہے"۔

راوی کہتا ہے کہ جب قافلہ روانہ  ہونے لگا تو آپ نے فرمایا:"اس کی کچھ شرائط ہیں اور میں ان شرائط میں سے ایک شرط ہوں"۔

حفظان صحت کی نصحیت

حضرت علی بن موسیٰ الرضا علیہ السلام نے فرمایا:«التّینُ یَذهَبُ بِالبَخرِ وَیَشُدُّ العَظمَ وَیُنبِتُ الشَّعرَ وَیَذهَبُ بِالدّاءِ وَلایُحتاجُ مَعَهُ إِلى دَواءٍ»؛[9]

"انجیر منہ کی بدبو کو دور، ہڈیوں کو مضبوط،بالوں کو افزائش دیتا ہے ۔اس کے استعمال کے بعد کسی دوا کی حاجت باقی نہیں رہتی"

مشکلات کو دور کرنے کے لیے امام سجاد علیہ السلام کی دعا

«یا مَنْ تُحَلُّ بِهِ عُقَدُالْمَکارِهِ، وَ یا مَنْ یُفْثَأُ بِهِ حَدُّ الشَّدآئِدِ، وَ یا مَنْ یُلْتَمَسُ مِنْهُ ‏الْمَخْرَجُ اِلى‏ رَوْحِ الْفَرَجِ، ذَلَّتْ لِقُدْرَتِکَ الصِّعابُ، وَ تَسَبَّبَتْ بِلُطْفِکَ الْاَسْبابُ، وَ جَرى‏ بِقُدْرَتِکَ الْقَضآءُ، وَ مَضَتْ عَلى‏ اِرادَتِکَ الْاَشْیآءُ.» [10]

اے خدا کہ ہر سختی کی گرہ کھولنا تیرے ہاتھ میں ہے، اے وہ جو سختیوں کی تندی کو اپنی عنایت سے توڑتا ہے، اے وہ کہ آسائش کی طلب اور تنگی سے نجات تجھ سے مانگی جاتی ہے ،مشکلیں تیرے لطف سے آسان ہوتی ہیں ،زندگی کی آسائش کے وسائل تیری رحمت کے محتاج ہیں،قضاو قدر تیرے دست قدرت میں ہے،اور چرخش حیات تیرے ارادے سے رواں دواں ہے۔

منابع و ماخذ

1-  ع‍لی ب‍ن‌ م‍وسی ال‍رض‍ا (ع‍لی‍ه‍م‍اال‍س‍لام‌) و ال‍ق‍رآن‌ ال‍ح‍کی‍م، ج‍وادی‌ آم‍لی‌، ع‍ب‍دال‍ل‍ه‌، ۱۴۰۸ ق‌، مشهد، الناشر ال‍م‍وت‍م‍ر ال‍ع‍ال‍می‌ ل‍لام‍ام‌ ال‍رض‍ا (ع‍لی‍ه‌ال‍س‍لام)

‌2- م‍ک‍اتی‍ب‌ الإم‍ام‌ ال‍رض‍ا (ع‍لی‍ه‌ال‍س‍لام‌)، ع‍لی‌ الأاح‍م‍دی‌ ال‍می‍ان‍جی‌، الناشر ال‍م‍وت‍م‍ر ال‍ع‍ال‍می‌ ل‍لإم‍ام‌ ال‍رض‍ا (ع‍لی‍ه‌ال‍س‍لام‌)، مشهد، 1411ه ق.

 

 



[1] :عیون اخبار رضا علیہ السلام ، شیخ صدوق ،انتشارات نشر جھان ،تھران ، 1378 ق، چ اول ،ج 1۔

[2] : (آل عمران/61)

[3] :  تفسیر نور الثقلین‏، عروسى حویزى عبد على بن جمعه‏، تحقیق: سید هاشم رسولى محلاتى‏،انتشارات اسماعیلیان‏، قم‏،1415 ق‏، چاپ: چهارم‏، ج 1،ص 349.

 

[4] : عیون أخبار الرضا علیه السلام‏، شیخ صدوق‏،انتشارات نشر جهان‏، تهران‏،1378 ق‏، چاپ: اول‏،ج 1،صص 231-232.

[5]: شعراء /214

[6] : احزاب: 33

[7] : آل عمران: 61

 

[8] : التوحید، باب ثواب الموحدین، شیخ صدوق،ص24، ح23؛ عیون اخبارالرضا، منشورات الاعلمی، ج2، ص134، ح4؛ معانی،ینابیع المودة، ج3، ص123

- وسائل الشیعه، حر عاملی، ج17، ص133، ح 1.[9]

[10] - صحیفه سجادیه ،دعا 7،ص 64.

موافقین ۰ مخالفین ۰ 14/12/25

نظرات (۰)

ابھی تک کوئ نظر ثبت نہیں ہوی

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی