امام سجاد علیہ السلام کی شھادت
آپ علیہ السلام کی مادر گرامی کا نام شیعہ کتب میں "شہر بانو " کے نام سے ذکر کیا گیا ہے ۔ [1] آپ کی کنیت میں ابوالحسن ، ابو محمد ، ابوالقاسم اور القاب میں سجاد ، زین العابدین ، زین الصالحین ، سید العابدین ، سید الساجدین ، ذوالثفنات ، ابن الخیرتین ، مجتہد ، عابد ، زاہد ، خاشع ، بکا ء، اور امین ذکر کیے گئے ہیں ۔
امام سجاد علیہ السلام کی زبانی اہل بیت اطہار کی فضیلت
حدّثنی ابی عن بعض رجاله قال: لقی الزهری علی بن الحسین (علیهما السلام) فی طریق الحجّ فقال له: یا علی بن الحسین! ترکت الجهاد و صعوبته و أقبلت علی الحجّ و لینته إن الله تبارک و تعالی یقول: [إِنَّ اللهَ اشْتَرَی مِنَ المُؤْمِنِینَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الجَنَّةَ یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِ اللهِ فَیَقْتُلُونَ وَیُقْتَلُونَ وَعْدًا عَلَیْهِ حَقًّا فِی التَّوْرَاةِ وَالإِنْجِیلِ وَالقُرْآَنِ وَمَنْ أَوْفَی بِعَهْدِهِ مِنَ اللهِ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَیْعِکُمُ الَّذِی بَایَعْتُمْ بِهِ وَذَلِکَ هُوَ الفَوْزُ العَظِیمُ] {التوبة:111} فقال له علی بن الحسین (علیهما السلام): إنّما هم الأئمّة صلوات الله علیهم، فقال: [التَّائِبُونَ العَابِدُونَ الحَامِدُونَ السَّائِحُونَ الرَّاکِعُونَ السَّاجِدُونَ الآَمِرُونَ بِالمَعْرُوفِ وَالنَّاهُونَ عَنِ المُنْکَرِ وَالحَافِظُونَ لِحُدُودِ اللهِ وَبَشِّرِ المُؤْمِنِینَ] {التوبة:112} فقال له علی بن الحسین صلوات الله علیهما: إذا رأینا هؤلاء الّذین هذه صفتهم، فالجهاد معهم أفضل من الحجّ.[2]
ترجمہ: بعض رجال سے میرے والد نے روایت کی ہے اور انہوں نے کہا ہے کہ زہری کی حج کے راستے میں امام علیہ السلام سے ملاقات ہوئی تو اس نے امام علی بن الحسین سے کہا :آپ نے جہاد اور اس کی مشکلات کو چھوڑکر حج کا رخ کرلیا ہے جبکہ ارشاد ربانی ہے:
"ترجمہ آیت : یقینا اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے اموال جنت کے عوض خرید لیے ہیں، وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں پھر مارتے ہیں اور مارے جاتے ہیں، یہ توریت و انجیل اور قرآن میں اللہ کے ذمے پکا وعدہ ہے اور اللہ سے بڑھ کر اپنا عہدپورا کرنے والا کون ہو سکتا ہے؟ پس تم نے اللہ کے ساتھ جو سودا کیا ہے اس پرخوشی مناؤ اور یہ تو بہت بڑی کامیابی ہے۔"
تو اما م علی بن الحسین نے فرمایا :بیشک اس سے مراد آئمہ علیہم السلام ہیں ۔تو اس نے کہا :" ترجمہ آیت : (یہ لوگ) توبہ کرنے والے، عبادت گزار، ثنا کرنے والے، (راہ خدا میں) سفر کرنے والے، رکوع کرنے والے، سجدہ کرنے والے، نیکی کی دعوت دینے والے اور برائی سے روکنے والے اور حدود اللہ کی حفاظت کرنے والے ہیں اور (اے رسول) مومنین کو خوشخبری سنا دیجیے۔" تو اس کے جواب میں امام علی بن الحسین علیہما السلام نے فرمایا : جب ہم دیکھیں گے کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کی یہ صفات ہیں تو ہم ایسے لوگوں کےہمراہ جہاد کرنے کو حج سے افضل سمجھتے ہیں ۔
تین چیزیں انسانی نجات کاسبب
قال علی بن الحسین السّجاد (علیهما السلام): «ثَلاثٌ مُنْجِیاتٌ لِلْمُؤْمِن: کَفُّ لِسانِهِ عَنِ النّاسِ وَاغتِیابِهِمْ، وَ إشْغالُهُ نَفْسَهُ بِما یَنْفَعُهُ لاَِّخِرَتِهِ وَدُنْیاهُ، وَطُولُ الْبُکاءِ عَلی خَطیئَتِهِ.»[3]
ترجمہ : تین چیزیں انسان کی نجات کا سبب بنتی ہیں :لوگوں کی بدگوئی اور غیبت سے اپنی زبان کو محفوظ رکھنا ، ایسے امورمیں خود کو مصروف رکھنا جو دنیا اور آخرت دونوں کے لیے یکساں مفید ہوں اور ہمیشہ اپنی غلطیوں اور گناہوں پر پشیمان ہونا اور گریہ کرنا۔
امام علیہ السلام کو سجاد کہنے کا سبب
جابر جعفی امام باقر العلوم علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ امام علیہ السلام نے فرمایا :جب بھی میرے پدر بزرگوار اللہ کی نعمتوں میں سے کسی نعمت کو یاد کرتے تو سر بسجود ہوجاتے اور جب بھی ان کے لیے کوئی مشکل پیش آتی تو سجدہ میں سر رکھ دیتے اور کوئی مشکل جب ان سے دور ہوجاتی تب بھی سر بسجود ہوجاتے ۔ اسی طرح آپ کسی بھی واجب نماز سے جب فارغ ہوتے تو ضرور سجدہ کرتے اور جب دو افراد کے درمیان تنازعہ کا فیصلہ کرتے تو سجدہ شکر انجام دیتے اور ان کے تمام اعضائے سجدہ پر سجود کے نشانات بالکل عیاں تھے اور اسی وجہ سے آپ علیہ السلام کو "سجاد " سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ [4]
امام سجاد علیہ السلام کی دعا
«یا مَنْ لاتَنْقَضی عَجآئِبُ عَظَمَتِهِ، صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ، وَاحْجُبْنا عَنِ الْاِلْحادِ فی عَظَمَتِکَ. وَ یا مَنْ لاتَنْتَهی مُدَّةُ مُلْکِهِ، صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ وَالِهِ، وَاَعْتِقْ رِقابَنا مِنْ نَقِمَتِکَ.»[5]
ترجمہ : " اے وہ ذات جس کی عظمت کے عجائبات کی انتہا نہیں ہے محمدو آل محمد پر درود بھیج اور ہمیں اپنی عظمت میں الحاد اور لغزش سے محفوظ فرما۔ اے وہ ذات جس کی حکمرانی کی سرحدیں بے انتہا ہیں محمد و آل محمد پر درود بھیج اور ہمیں اپنے عذاب سے محفوظ فرما۔ "
[1] ۔ زندگانی علی بن الحسین (ع)، سید جعفر شهیدی، ص 10 و 11، دفتر نشر فرهنگ اسلامی، پنجم، 1373 ش; پرسش ها و پاسخ ها،
دفتر سیزدهم، ص 74، دفتر نشر معارف، قم، اول، 1382 ش
4- عروسى حویزى عبد على بن جمعه، تفسیر نور الثقلین، تحقیق: سید هاشم رسولى محلاتى،انتشارات اسماعیلیان، قم،1415 ق، چاپ: چهارم، ج 2،ص 273.
[4] ۔ علل الشرائع ،ص ۸۸