رمضان کی فضیلت
رمضان مبارک خدائے تعالیٰ کا مہینہ ہے اور یہ سارے مہینوں سے افضل ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں آ سمان جنت اور رحمت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں۔ اس مہینے میں ایک رات ایسی بھی ہے، جس میں عبادت کرنا ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر ہے۔ پس اے انسانو! تمہیں سوچنا چاہیئے کہ تم اس مہینے کے رات دن کس طرح گزارتے ہو اور اپنے اعضائے بدن کو خدا کی نافرمانی سے کیونکر بچاسکتے ہو، خبردار کوئی شخص اس مہینے کی راتوں میں سوتا نہ رہے اور اس کے دنوں میں حق تعالیٰ کی یاد سے غافل نہ رہے کیونکہ ایک روایت میں آیا ہے کہ ماہِ رمضان میں دن کا روزہ افطار کرنے کے وقت اللہ تعالیٰ ایک لاکھ انسانوں کو جہنم کی آگ سے آزاد کرتا ہے اور شبِ جمعہ یا جمعہ کے دن ہر گھڑی میں خدائے تعالیٰ ایسے ہزاروں انسانوں کو آتشِ دوزخ سے رہائی بخشتا ہے جو دوزخی بن چکے ہوتے ہیں۔نیز اس مہینے کی آخری رات اور دن میں حق تعالیٰ اپنے اتنے بندوں کو جہنم سے آزاد کرتا ہے جتنے کہ پورے رمضان میں آزاد کرچکا ہے۔ پس اے عزیزو! توجہ کرو کہ مبادا یہ مبارک مہینہ تمام ہوجائے اور تمہاری گردن پر گناہوں کا بوجھ باقی رہ جائے اور جب روزہ دار اپنے روزوں کا اجر پارہے ہوں تو تم ان لوگوں میں گنے جاؤ جن کو محروم کیا جارہا ہو۔ تمہیں تلاوتِ قرآن کرکے افضل وقت میں نمازیں بجا لاکر دیگر عبادتوں میں سعی کرکے اور توبہ واستغفار کرکے خدا کا تقرب حاصل کرنا چاہیئے، کیونکہ امام جعفر صادق (ع)سے روایت ہے کہ جو شخص اس بابرکت مہینے میں نہیں بخشا گیا تو وہ آیندہ رمضان تک نہیں بخشا جائیگا سوائے اس کے کہ وہ عرفہ میں حاضر ہوجائے۔ پس تمہیں ان چیزوں سے پرہیز کرنا چاہیئے جن کو خدائے تعالیٰ نے حرام کیا ہے۔ یعنی حرام چیزوں سے روزہ افطار نہیں کرناچاہیئے، اور تمہیں اس طرح رہنا چاہیئے جیسے امام جعفر صادق علیہ السلام نے وصیت فرمائی ہے کہ جب تم روزہ رکھو تو تمہارے کانوں آنکھوں بدن کے رونگٹوں اور جلد اور دوسرے سب اعضاء کو بھی روزہ دار ہونا چاہیئے یعنی ان کو حرام بلکہ مکروہ چیزوں اور کاموں سے بچائے رکھو۔ نیز فرمایا کہ تمہارا روزہ دار ہونے کادن اس طرح کا نہ ہو جیسے تمہارا روزہ دار نہ ہونے کا دن تھا۔پھر فرمایا کہ روزہ صرف کھانے پینے سے رکنے تک ہی نہیں۔ بلکہ حالتِ روزہ میں اپنی زبانوں کو جھوٹ سے اور آنکھوں کو حرام سے دور رکھو۔ روزے کی حالت میں کسی سے لڑائی جھگڑا نہ کرو، کسی سے حسد نہ رکھو۔ کسی کا گلہ شکوہ نہ کرو اور جھوٹی قسم نہ کھاؤ۔ بلکہ سچی قسم سے بھی پرہیز کرو، گالیاں نہ دو، ظلم نہ کرو، جہالت کا رویہ نہ اپناؤ۔ بیزاری ظاہر نہ کرو اور یاد خدا اور نماز سے غفلت نہ برتو ۔ ہر وہ بات جو نہ کہنی چاہیئے۔ اس سے خاموشی اختیار کرو ، صبر سے کام لو ، سچی بات کہو برے آدمیوں سے الگ رہو بری باتوں، جھوٹ بولنے، بہتان لگانے، لوگوں سے جھگڑنے ، گلہ کرنے اور چغلی کھانے جیسی سب چیزوں سے پرہیز کرو ۔ اپنے آپ کو آخرت کے قریب جانو ۔ حضرت قائم آلِ محمد (ع) کے ظہور کے انتظار میں رہو، آخرت کے ثواب کی امید رکھو، آخرت کیلئے اچھے اعمال کا ذخیرہ تیار کرو۔ تمہیں خدا کے خوف میں اس طرح عاجز وخوار رہنا چاہیئے، جیسے وہ غلام کہ جو اپنے آقا سے ڈرتا ہے۔ اس کا دل رکا ہوا اور جسم سہما ہوا ہوتا ہے۔ خدا کے عذاب سے ڈرو اور اس کی رحمت کی امید رکھو۔ اے روزہ دارو! تمہارے دل عیبوں سے تمہارے باطن مکر و فریب سے اور تمہارے بدن آلودگیوں سے پاک ہونے چاہیے۔ الله کے سوا دوسرے خداؤں سے بیزاری اختیار کرو اور روزے کی حالت میں اپنی محبت و نصرت کو الله کیلئے خالص کرو۔ ہر وہ چیز ترک کردو جس سے خدا نے ظاہر و باطن میں روکا ہے خدا وند قہار سے ظاہر و باطن میں ایسا خوف رکھو جو خوف رکھنے کا حق ہے اور روزے کی حالت میں اپنا بدن اور روح خدا کے حوالے کردو اور اپنے دل کو صرف اس کی محبت اور یاد کیلئے یکسو کر لو اور اپنے جسم کو ہر اس چیز کیلئے فرمان بردار بناؤ جس کا خدا نے حکم دیا ہے ۔ اگر تم ان سب چیزوں پر عمل کر لو جو روزے کیلئے مناسب ہیں توپھر تم نے خدا کی فرمائشوں پر عمل کیا ہے اور جن چیزوں کا میں نے تذکرہ کیا ہے اگر ان میں سے کچھ کم کر دوگے تو تمہارے ثواب اور فضیلت میں کمی آجائے گی ۔ بے شک میرے والد بزرگوار نے فرمایاکہ:رسول الله ﷺنے سنا کہ ایک عورت بحالت روزہ اپنی کنیز کو گالیاں دے رہی ہے تو حضرت نے کھانا منگوایا اور اس عورت سے کہا کہ یہ کھانا کھا لو ۔ اس نے عرض کی کہ میں روزے سے ہوں آنحضرت نے فرمایا کہ یہ کس طرح کا روزہ ہے جبکہ تونے اپنی کنیز کو گالیاں دی ہیں ۔ روزہ محض کھانے پینے سے رکنے ہی کا نام نہیں بلکہ حق تعالیٰ نے تو روزے کو تمام قبیح کاموں یعنی بد کرداری و بد گفتاری وغیرہ سے محفوظ قرار دیا ہے پس اصل و حقیقی روزے دار بہت کم اور بھوکے پیاسے رہنے والے بہت زیادہ ہیں امیر المؤمنین (ع)نے فرمایا کہ کتنے ہی روزہ دار ہیں کہ جن کے لئے اس میں بھوکا پیاسا رہنے کے سوا کچھ نہیں اور کتنے ہی عبادت گزار ہیں کہ جن کا حصہ ان میں سوائے بدن کی زحمت اور تھکن کے کچھ نہیں ہے ۔ کیا کہنا اس عقل مند کی ننید کا جو جاہل کی بیداری سے بہتر ہے اور کیا کہنا اس صاحب فراست کا جس کا روزے سے نہ ہونا روزداروں سے بہتر ہے جابر بن یزید نے امام محمد باقر (ع)سے روایت کی ہے کہ رسول الله ﷺنے جابر ابن عبد الله سے فرمایا: اے جابر! یہ رمضان مبارک کا مہینہ ہے ، جو شخص اس کے دنوں میں روزہ رکھے اور اس کی راتوں کے کچھ حصے میں عبادت کرے۔ اپنے شکم اور شرمگاہ کو حرام سے بچائے رکھے اپنی زبان کو روکے رکھے تو وہ شخص گناہوں سے اس طرح باہر آئے گا جیسے یہ مہینہ جلدی ختم ہو گیا ہے ۔ جناب جابر نے عرض کی یا رسول الله! آپ نے بہت اچھی حدیث فرمائی ہے ، آپ نے فرمایا وہ شرطیں کتنی سخت ہیں جو میں نے روزے کیلئے بیان کی ہیں ۔
خدایا محمد اور آل محمد صلی اللہ علیہ و الیہ وسلم پر اپنی رحمت فرما اور ہمیں اس مہینہ میں ان برکات سے فیضیاب ہونے کی توفیق عطا فرما جو تو نے اپنے صالح بندوں کے لئے مخصوص کی ہیں ۔آمین۔