سیده کونین حضرت فاطمه زهراسلام الله علیهاکی ولادت باسعادت
شوہر: امیر المو منین علی بن ابی طالب علیہ السلام (آپ ۹سال کی عمر سے لے کر ۱۱ ہجری تک بمدت ۹سال حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی زوجیت میں رہیں پھر شہید ہوئیں).
اولاد:
بیٹے: حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام، حضرت امام حسین علیہ السلام اور حضرت محسن علیہ السلام -
بیٹیاں: حضرت زینب کبری اور حضرت ام کلثوم علیہما السلام
تاریخ اور سبب شہادت: تین جمادی الثانی۱۱ھ ق، رسول خداﷺ کی رحلت کے پچانوے (۹۵) دن بعد، آنخضرت ﷺ کی وفات کے بعد پہنچنے والے دکھ و تکالیف کی وجہ سے شہید ہوئیں۔
محل دفن: مدینہ (مدینہ میں کونسی جگہ آپ کو دفن کیا گیا ہے ۔اسے آپ کی وصیت کے مطابق پوشیدہ رکھا گیا ہے۔
اللہ تعالی کے نزدیک سیدہ کونین سلام اللہ علیہا کے اسماء
مرحوم شیخ صدوق رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی سند سے یونس بن ظبیان سے روایت کی ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
’’لفاطمۃعلیھا السلام تسعۃ اسماء عنداللہ عز و جل: فاطمۃ،والصدیقۃ،والمبارکۃ، والطاہرۃ، والزکیۃ، والراضیۃ، والمرضیۃ والمحدثۃ، والزہرا‘‘
اللہ تبارک و تعالی کے نزدیک فاطمہ سلام اللہ علیہا کے نو(۹) اسماء ہیں:
فاطمہ، صدیقہ، مبارکہ، طاہرہ، زکیہ، رضیہ، مرضیۃ، محدثہ، اور زہرا سلام اللہ علیہا-
اس فرمان سے یہ واضح ہوتا ہے کہ سیدہ سلام اللہ علیہا کے اسماء آسمان سے نازل ہوئے ہیں، اور یہ نام اللہ تبارک و تعالی نے سیدہ سلام اللہ علیہا کے لیے انتخاب فرمائےہیں، اور یہ بھی واضح ہونا چاہیے کہ اس حدیث میں اسماء عام ہیں جو کہ اسم و لقب دونوں کو شامل ہیں۔
ان اسماء میں سے ہر ایک کے اندر بہت سے اسرار ہیں جو در حقیقت سیدہ سلام اللہ علیہا کے عظیم مقام و منزلت پہ دلالت کر رہے ہیں اور یہ حقیقت معصومین علیہم السلام کی جانب سے ان اسماء کی وجہ تسمیہ کے بغور مطالعہ سے واضح ،عیاں اور آشکار ہوتی ہے۔
فاطمہ سلام اللہ علیہاکی وجہ تسمیہ:
شفیعہ روز جزا کے اس نام کی وجہ تسمیہ میں جو معصومین علیہم السلام کے ارشادات گرامی ہیں۔ان میں سے بعض کو ہم ذکر کر رہے ہیں:
رسالتمآبﷺ کا ارشاد گرامی:
’’وشق لک یا فاطمہ اسما من اسمائہ فھو الفاطر وانت فاطمۃ‘‘
اور اے فاطمہ! اللہ تعالی نے تیرے لیے اپنے ناموں میں سے ایک نام (فاطمہ) مشتق کیا ہے، پس وہ فاطر (پیدا کرنے والا) ہے اور تو فاطمہ سلام اللہ علیہا ہے۔
فاطر اور فاطمہ میں اشتقاق معنی کے لحاظ سے ہے نہ کہ لفظ کے اعتبار سے، اور اس اشتقاق کو اشتقاق معنوی کہا جاتا ہے اور اشتقاق معنوی بھی اشتقاق کی قسم ہے۔ بے شک اللہ تعالی نے آسمانوں کو، زمین کو نور فاطمہ کے طفیل خلق فرمایا، پس گویا دو لفظ ایک ہی معنی کے لیے استعمال ہوئے ہیں، یا یہ کہ فاطر و فاطمہ متقارب المعنی ہیں۔
حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا ارشاد گرامی:
’’انما سمیت فاطمۃ لان اللہ فطم من احبھا من النار‘‘
فاطمہ کا نام فاطمہ سلام اللہ علیہا اس لیے رکھا گیا ہے کیوں کہ اللہ تبارک و تعالی نے محبان فاطمہ سلام اللہ علیہا کو آتش جہنم سے علیحدہ (جدا،الگ) کیا ہے ۔
اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ خود حضرت فاطمہ کے نام میں اپنے محبوں کی آتش جہنم سے نجات پوشیدہ ہے اور اسی نام میں جھنم سے برائت اور جنت میں داخلہ کا راز موجود ہے۔
حضرت امام رضا علیہ السلام کا ارشاد گرامی:
۱۔ آٹھویں امام حضرت علی بن موسی الرضاعلیہ السلام اپنے آباء و اجداد اطہارعلیہم السلام سے روایت کرتے ہیں کہ رسول خداﷺ نے فرمایا:
’’انی سمیت فاطمۃ لانما فطمت و ذریتھا من النار‘‘
بے شک میں نے (اپنی بیٹی کا ) نام فاطمہ اس لیے رکھا ہے کہ اسے اور اس کی ذریت کو آتش جھنم سے الگ کیا گیا ہے۔
۲۔ عبد اللہ بن حسن سے روایت ہے کہ حضرت امام علی بن موسی الرضا علیہ السلامنے مجھ سے فرمایا:
(کیا تجھے معلوم ہے کہ) فاطمہ سلام اللہ علیہا کا نام فاطمہ سلام اللہ علیہا کیوں رکھا گیا ہے؟ میں نے عرض کی، اس لیے تا کہ دوسرے ناموں سے منفرد اور مختلف ہو جائے۔
اس پر آپؑ نے فرمایا:
فاطمہ بھی اسماء میں سے ایک اسم ہے۔ لیکن حضرت فاطمہ کا نام فاطمہ اس لیے رکھا گیا ہے کیوں کہ اللہ تبارک و تعالی ہر چیز کی وضع کو اس کے وجود میں آنے سے پہلے جانتا ہے اور اللہ تعالی یقینا یہ جانتا تھا کہ نبی کریمﷺ قبایل کی عورتوں سے شادی کریں گے اور وہ لوگ اس امر خلافت میں لالچ کریں گے۔
’’فلما ولدت فاطمتہ سما ھا اللہ تبارک و تعالی فاطمتہ لما اخرج منھا وجعل فی ولدھا فقطعھم عما طمعوا، فبھذا سمیت فاطمتہ،لانما فطمت طمعھم،ومعنی فطمت قطعت‘‘
پس جب حضرت فاطمہ کی ولادت ہوئی تو اللہ تعالی نے خلافت کو اولاد فاطمہ زہراسلام اللہ علیہا میں مخصوص کر دیا۔
پس اللہ نے ان لوگوں کو خلافت سے کاٹ لیا اور اسی وجہ سے فاطمہ نام رکھا گیا ۔ اس لیے کہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے ان کے لالچ کو منقطع کر دیا اور فطمت کے معنی قطعت (اس نے کاٹ دیا) کے ہیں۔
حضرت ثامن الآئمہ علی بن موسی الرضاعلیہ السلام اپنے آباء و اجداد طاہرین علیہم السلام سے روایت کرتے ہیں کہ رسالتمآبﷺ نے فرمایا:
’’ان اللہ عز وجل فطم ابنتی فاطمۃ وولدھا ومن احبھم من النار فلذالک سمیت فاطمۃ‘‘
بتحقیق اللہ عز وجل نے میری بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیہا اور ان کی اولاد اور ان سے محبت رکھنے والوں کو آتش جہنم سے جدا کیا ہے ۔ پس اسی وجہ سے ان کا نام فاطمہ رکھا گیا ہے۔
۴۔ حضرت امام رضا اور حضرت امام محمد تقی علیہما السلام فرماتے ہیں:
ابن عباس نے معاویہ سے کہا: کیا تو جانتا ہے کہ فاطمہ کا نام فاطمہ سلام اللہ علیہا کیوں رکھا گیا ہے؟ اس نے کہا : نہیں؛
ابن عباس نے کہا : میں نے رسالتماب (ص) سے سنا ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:
’’لانھا فطمت ھی وشیعتھا من النار‘‘
اس لیے کہ انھیں اور ان کے شیعوں کو آگ جہنم سے جدا کیا گیا ہے۔
۵۔حضرت امام علی بن موسی الرضاعلیہ السلام اپنے آباء و اجداد اطہارعلیہم السلام سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’انی سمیت ابنتی فاطمۃ لان اللہ عز وجل فطمھا و فطم من احبھا من النار‘‘
بتحقیق میں نے اپنی بیٹی فاطمہ کا نام فاطمہ سلام اللہ علیہا اس لیے رکھا ہے۔ کیوں کہ اللہ عز وجل نے اسے اور اس کے چاہنے (اس سے محبت رکھنے) والوں کو آتش جہنم سے الگ کر دیا ہے ۔
بہرحال اس اسم کو شفاعت پر دلالت کرنے کے لیے وضع کیا گیا ہے اور نیز اسے آتش جھنم سے رہائی اور نجات کے لیے وضع کیا گیا ہے۔
حضرت صادق آل محمدعلیہ السلام کا ارشاد گرامی: حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے یونس بن ظبیان سے مخاطب ہو کر فرمایا:
’’تدری لای شیء سمیت فاطمۃ؟فقلت:اخبرنی یا سیدی،قال: فطمت من الشر‘‘
کیا تم جانتے ہو کس لیے فاطمہ کو فاطمہ سلام اللہ علیہا کہا جاتا ہے؟ پس میں نے عرض کی: اے میرے آقا و سردار، آپ ہی رہنمائی فرمائیں، مجھے بتائیں؛ آپ نے فرمایا: اس لیے فاطمہ سلام اللہ علیہا کا نام فاطمہ سلام اللہ علیہا رکھا گیا ہے کیوں کہ انھیں برائیوں سے الگ کیا گیا ہے۔
یہ حدیث حقیقت میں سیدہ کونین سلام اللہ علیہا کی عصمت پر دلالت کر رہی ہے، اور یہاں فعل مجہول (فطمت) فاعل کے واضح، بدیھی اور آشکار ہونے کی وجہ سے ذکر کیا گیا ہے۔ یعنی واضح سی بات ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو ہر قسم کی برائی سے الگ کرنے والی اللہ کی ذات ہے، اس لیے کہ یہ فعل ہی اسی سے مخصوص ہے، یہ فعل ‘‘خلق الانسان’’ کی طرح ہے، اور ‘‘الشر’’ میں الف و لام جنس کے لیے ہے اور یہ لفظ آیہ تطہیر میں استعمال کیے گئے’’الرجس‘‘ کی مانند ہے۔ لہذا ہر طرح کی برائی سے محفوظ اور مصون شخص کو معصوم ہی کہتے ہیں۔
دوسری بات یہ کہ یہ حدیث حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی افضلیت پر دلالت کر رہی ہےاور اس مطلب کا بہترین گواہ اسی حدیث میں امام معصومؑ (حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام) کا آخری جملہ ہے، جس میں آپؑ نے فرمایا: ’’لو لا ان امیر المومنین علی علیہ السلام تزوجھا لما کان لھا کفو علی وجہ الارض الی یوم القیامۃ، آدم فمن دونہ‘‘
اگر حضرت امیر المو منین علی علیہ السلام ان سے شادی نہ کرتے تو روز قیامت تک زمین پر ان کا کوئی کفو و ہمسر نہ ہوتا، آدم اور ان کے بعد جو بھی ہوتا۔
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------