اتحاد بین المسلمین
آیت اللہ کاشف الغطاء کی یہ فریاد آج بھی تازگی رکھتی ہے۔ 62 سال پہلے اس فقیہ مجاہد نے جس بات سے مسلمانوں کو خبردار کیا، اور اسکا حل بتایا، آج بھی عالمی سیاست اپنی اسی ڈگر پر چل رہی ہے اور اسکا اصل ہدف صرف اور صرف اسلام ہے اور اس حملہ سے بچائو کا طریقہ کار کچھ اور نہیں مگر مسلمانوں کے درمیان اتحاد ہے۔ وحدت، اس ڈور کی مانند کہ جو تسبیح کے دانوں کو جمع کرتی ہے، معاشرہ کے تمام افراد کو ایک ساتھ ملا کر رکھتی ہے اور معاشرہ کو انتشار اور افراتفری سے بچانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہر زمانے کے عقلمندوں کی روش یہ رہی ہے کہ جب انھوں نے کسی بڑے کام کو انجام دینا چاہا تو جو اہم ترین قدم انھوں نے شروع میں اٹھایا وہ لوگوں میں وحدت اور ہمدلی کی فضا کو ایجاد کرنا تھا۔ یہ بات ایک مسلم حقیقت ہے کہ انسان تنہا کبھی کسی بڑے اجتماعی ہدف تک نہیں پہنچ سکتا، اور اگر کسی معاشرہ میں تفرقہ اور اختلاف ہے تو یہ بات بہت واضح ہے کہ وہ معاشرہ کسی بھی حوالہ سے ترقی نہیں کرسکتا۔
اسلام انسان کو
تکامل تک لے جانے کے لئے اس دنیا میں بھیجا گیا۔
"الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دینَکُمْ
"سورہ مائدہ/ ۳۔ (آج میں نے
تمھارے لئے تمھارے دین کو کامل کر دیا۔)
اور یہ خدا کی طرف سے کامل دین کا بھیجنا صرف اسی لیے ہے کہ انسان اپنی
صلاحیتوں کو کمال تک پہچائے۔ آج کل زیادہ تر مسلمان ممالک میں شیعہ اور سنی ایک
ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔ اگر معاشرہ میں شیعہ اور سنی آپس میں تفرقہ کے ساتھ
رہینگے تو یہ بات بہت واضح ہے کہ مسلمان معاشرے اور ممالک کسی بھی طریقہ سے ترقی
نہیں کرپائینگے، اور یہی اسلام کے دشمنوں کی خواہش ہے کیونکہ استکبار کی اسلام
دشمنی اب کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ دوسری طرف مسلمان ممالک کے اندرونی مسائل
مثلا غربت، جہالت، بی روزگاری وغیرہ نے انکو گھیرے میں لیا ہوا ہے، اگر بدامنی اور
تفرقہ کا مسئلہ بھی ان مسائل میں شامل ہو جائے تو اسلام دشمنوں کا مقابلہ تو دور
کی بات، اسلامی ممالک کی اپنی حیثیت خطرہ میں پڑ جائیگی اور اس بات کا مشاہدہ ہم
پاکستان، افغانستان اور عراق میں بہت آسانی سے کرسکتے ہیں۔
اسلام نے وحدت کی
اہمیت کو سمجھتے ہوئے اس بات کو اپنا سرنامہ کلام بنایا ہے کہ اسکے ماننے والے ایک
امت ہیں۔
"إِنَّ هذِهِ أُمَّتُکُمْ أُمَّةً
واحِدَة" سورہ انبیاء/ ۹۲ (یہ تمہاری امت
یقیناً امت واحدہ ہے)
پس اسلام یہ چاہتا ہے کہ اسکے تمام پیروکار خدا کی بندگی اور اسکا تقویٰ اختیار
کرتے ہوئے ایک امت بن جائیں۔ اتحاد بین المسلمین کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ چونکہ
اتحاد کا حکم ہے، پس ہر قیمت پر اتحاد کیا جائے، چاہے طرف جو بھی عقائد رکھتا ہو۔
اور آج کی سیاست میں وہابیت کہ جسکا نتیجہ طالبان جیسی وحشی تنظیم کی شکل میں
نمودار ہوا ہے، اسکو بقیہ سنی برادران سے جدا کرنے کی ضروررت ہے۔ وہابیت صرف شیعوں
کی دشمن نہیں ہے بلکہ اگر انکے ہاتھ کھول دیئے جائیں تو نہ حنفی بچیں گے، نہ
شافعی، نہ مالکی اور نہ انکے علاوہ۔ ہاں ہم تمام مذہبی دانشمندوں کو چاہے انکا
تعلق جس فرقے سے ہی کیوں نہ ہو، اس بات کی طرف دعوت فکر دیتے ہیں کہ اگر وہ چاہتے
ہیں کہ اسلامی معاشروں سے وہابیت کے افراطی افکار کا خاتمہ ہو تو اسکے کے فتنہ کو
بغیر شیعہ سنی اتحاد کے قابو نہیں کیا جاسکتا۔
بعض اوقات اتحاد بین المسلمین سے یہ مطلب لیا جاتا ہے کہ فریقین اپنے عقائد چھوڑ دیں اور آکر مل بیٹھیں۔ یعنی کیمسٹری میں جس طرح ایک( compound ) بنتا ہے کہ جو اپنے بنیادی اجزاء کی خصوصیات کو محو کرکے ایک جدید شکل اپناتا ہے، اسی طرح بعض افراد اتحاد کے مفہوم کو بھی لیتے ہیں جبکہ اجتماعی امر میں یہ بات، نہ ممکن ہے نہ معقول۔ بلکہ اسلام کے مختلف فرقوں میں اتحاد کا مطلب یہ ہے کہ اس کے ساتھ ساتھ کہ وہ اپنی انفرادیت کو برقرار رکھیں، کچھ مشترک نکات پر ہم آہنگی اور وحدت حاصل کریں، یعنی ان فرقوں کی انفرادیت بھی محفوظ رہے اور وحدت بھی۔
قرآن میں اتحاد
کی تاکید اور تفرقہ سے پرہیز پر متعدد آیات موجود ہیں۔ ہم بطور مثال چند آیات کو
پیش کرتے ہیں۔
قرآن رسول خدا (ص) کی رسالت پر ایمان رکھنے والوں کو برادری کی دعوت دیتا ہے۔
"إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ
فَأَصْلِحُوا بَیْنَ أَخَوَیْکُمْ وَ اتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُونَ
" الحجرات/ ۱۰، (بیشک مومنین
آپس میں بھائی بھائی ہیں، پس اپنے بھائیوں کے درمیان صلح کرو اور خدا کا تقویٰ
اختیار کرو، شاید خدا کی رحمت تمھارے شامل حال ہو جائے۔)
اس آیہ شریفہ میں مومنین کو برادری کی دعوت دی گئی ہے اور آپس میں تفرقہ سے بچنے
کا کہا گیا ہے تاکہ قرآنی اصول "أَشِدَّاءُ عَلَى الْکُفَّارِ رُحَمَاءُ
بَیْنَهُمْ" کے مطابق اسلام
کے سایہ تلے محبت اور الفت کے ساتھ مومنین مل جل کر زندگی گزار سکیں۔
وَ اعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِیعاً وَ لاَ
تَفَرَّقُوا آل عمران/۱۰۳ (اور اللہ کی ر
سّی کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور آپس
میں
تفرقہ نہ پیدا
کرو)
مفسرین اس آیہ شریفہ کے ذیل میں یہ فرماتے ہیں کہ خدا کی رسی کو تھامنا یعنی خدا
کی آیات اور رسول خدا (ص) سے تمسک ہے کہ امت اگر ایسا کریگی، تو ہدایت پائیگی
کیونکہ قرآن اور رسول اکرم (ص) کی ہدایت صرف
اور صرف خدا تک پہچاتی ہے۔ لیکن اگر ان ہدایات سے دوری ہوگی تو نتیجتاً آپس میں
تفرقہ پیدا ہوگا کہ جس کا انجام اسلام کی کمزوری میں ظاہر ہوگا۔
اسی مطلب کو ایک
دوسرے انداز میں قرآن نے کچھ اسطرح بیان کیا" "
"وَ أَطِیعُوا اللَّهَ وَ رَسُولَهُ وَ لاَ
تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا "(اور خدا اور اس
کے رسول کے حکم پر چلو اور آپس میں جھگڑا نہ کرنا کہ (ایسا کرو گے تو) تم بزدل ہو
جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائیگی)
پس ان آیات قرآنی سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ہر وہ کام کہ جو اخوت اور بھائی
چارگی کے خلاف ہو، وہ قرآن کے احکامات کے منافی ہوگا۔
وحدت اور بھائی چارگی کی راہ کے اہم ترین کاموں میں سے ایک کام، ایک دوسرے کے دینی
مقدسات اور محترم ہستیوں کا احترام کرنا ہے اور انکا نام احترام سے لینا ہے۔ اگر
ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے مذہبی رہنمائوں اور علماء کی بی احترامی نہ ہو تو دوسرے
بھی ایسا ہی چاہتے ہیں۔ قرآن کریم میں اس اصل کو حتی بت پرستوں کا تذکرہ کرتے ہوئے
بیان کیا گیا ہے۔
"وَ لاَ تَسُبُّوا الَّذِینَ یَدْعُونَ مِنْ
دُونِ اللَّهِ فَیَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَیْرِ عِلْمٍ" انعام/۱۰۸ (گالی مت دو ان
کو جن کو یہ اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہیں، مبادا وہ عداوت اور نادانی میں اللہ کو
برا کہنے لگیں)
اسلامی معاشرہ
میں اخلاقی اصولوں کی رعایت کرنا وحدت کی راہ میں ایک اہم ترین قدم ہوگا۔ قرآن
تمام مسلمانوں کو یہ حکم دیتا ہے کہ اپنے مخالفین حتی غیر مسلموں کے ساتھ برتائو
کرتے ہوئے اخلاقی اصولوں کا خیال رکھا جائے۔
"لاَ یَنْهَاکُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِینَ لَمْ
یُقَاتِلُوکُمْ فِی الدِّینِ وَ لَمْ یُخْرِجُوکُمْ مِنْ دِیَارِکُمْ أَنْ
تَبَرُّوهُمْ وَ تُقْسِطُوا إِلَیْهِمْ إِنَّ اللَّهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِینَ
" ممتحنہ/۸ (جن لوگوں نے
دین کے بارے میں تم سے جنگ نہیں کی اور نہ ہی تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا ہے،
اللہ تمہیں ان کے ساتھ احسان کرنے اور انصاف کرنے سے نہیں روکتا، اللہ یقیناً
انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔)
پس اگر ہم چاہتے ہیں کہ اسلامی معاشروں میں وحدت کی فضا برقرار ہو تو اسکے لئے
ضروری ہے کہ مسلمان آپس میں الفت اور دوستی کے ساتھ زندگی گزاریں اور ایک
دوسرے کے ساتھ نیکی سے پیش آئیں اور بداخلاقیوں کا خوش اخلاقیوں سے جواب
دیں۔
"وَ یَدْرَءُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّیِّئَةَ
" رعد/۲۲ ( نیکی کے ذریعے
برائیوں کو دفع کیا جائے)
"وَ إِذَا حُیِّیتُمْ بِتَحِیَّةٍ فَحَیُّوا
بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا" النساء/۸۶( اور جب
تم لوگوں کو کوئی تحفہ(سلام) پیش کیا جائے تو اس سے بہتر یا کم سے کم ویسا ہی واپس
کرو)۔
"وَ لاَ یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى
أَلاَّ تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى " (خبردار کسی قوم
کی عداوت تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کر دے کہ انصاف کو ترک کر دو -انصاف کرو کہ یہی
تقوٰی سے قریب تر ہے)
ان آیات سے واضح ہوتا ہے کہ قرآن ہم سب کو یہ حکم دے رہا ہے کہ اختلاف اور دشمنی
باعث نہ بنے کہ ہم مخالفین سے برتائو میں حق اور انصاف کے راستہ سے دوری اختیار کر
جائیں۔
دراصل عقل اور قرآن حقیقت تک پہچنے کے فطری مصادر ہیں اور ممکن نہیں ہے کہ جو حکم
عقل لگائے اس کے برخلاف قرآن میں بات کی جائے۔ جس طرح ہماری عقل آپس میں ملکر رہنے
کے فوائد اور تفرقہ کے نقصانات کو سمجھ رہی ہے، اسی طرح قرآن بھی انہی حقائق سے
پردہ اٹھانے رہا ہے۔