حضر ت امام موسی کاظم علیہ السلام کی شهادت
آپ کو «ابوالحسن» ، «ابوابراهیم» کی کنیت اور «باب الحوائج»، «الصابر»، «زین المجتهدین» کے لقب سے جانا جاتا ہے.[4]
آپ کا دوران امامت منصور دوانیقی کے آخری دور خلافت اور ہارون رشید کے ابتدائی ۱۳ سالوں پر مشتمل ہے ۔ آپ کی پچپن سالہ زندگی میں آپ کا دور امامت تقتریبا ۳۵ سال تھا ، جسمیں سے آپ کی بیشتر عمر قید میں گزری اور وہیں ہارون الرشید کے حکم پرسندی بن شاھک کے ذریعہ آپ کو زہر دے دیا گیا اور زندان میں مظلومانہ طریقہ سے آپ کی شہادت واقع ہوئی۔
اہل بیت علیہم السلام کا اہل ذکر ہونا
[فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّکْرِ إِنْ کُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ] (نحل 16/43) " پس اگر تم نہیں جانتے تواہل ذکر سے پوچھ لو " حضر ت امیر المومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں : " ہم اہل ذکر ہیں " یہی معنی دوسرے آئمہ اطہار علیہم السلام سے بھی منقول ہے ۔ (تفسیر کبیر ثعلبی) عن أبى جعفر (علیه السلام) فی قول الله عزّوجلّ: [فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّکْرِ إِنْ کُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ] قال رسول الله صلى الله علیه و آله: «الذکر أنا، و الأئمّة علیهم السلام أهل الذکر»[5]
ترجمہ : تفسیر کبیر ثعلبی میں ہے کہ حضرت امام باقر علیہ السلام سے اس آیت :" فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّکْرِ إِنْ کُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ]" کے بارے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا " ذکر میں ہوں اور آئمہ طاہرین علیہم السلام اہل ذکر ہیں ۔
ہارون نے اس منقبت کے بارے لوگوںمیں شک و تردید ایجا د کرنے کی غرض سے امام ہفتم کو کہا : آپ کیسے خود کو اس قابل سجھتے ہیں کہ لوگ آپ کو فرزند رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کہہ کر پکاریں جبکہ آپ علی بن ابی طالب علیہما السلام کے بیٹے ہیں اور صرف آپ کی مادر گرامی "فاطمہ علیہا السلام " رسول کی بیٹی ہیں ۔ اور ہرشخص اپنے باپ کے جد سے محشور ہوتا ہے نہ ماں کے جد سے ؟ امام علیہ السلام نے فرمایا :" مجھے اس کا جواب دینے سے معاف رکھو " ہارون نے اصرار کیا کہ نہیں آپ ضرور جواب دیں اور قرآن سے کوئی مضبوط دلیل پیش کریں۔ تو پھر امام علیہ السلام نے اس آیت کی تلاوت کی " وَمِن ذُرِّیَّتِهِ دَاوُودَ وَسُلَیْمَانَ وَاَیُّوبَ وَیُوسُفَ وَمُوسَی وَهَارُونَ وَکَذٰلِکَ نَجْزِى الْمُحْسِنِینَ وَزَکَرِیَّا وَیَحْیَی وَعِیسَی وَإِلْیَاسَ کُلٌّ مِّنَ الصَّالِحِین" [6] اور پھر ہارون سے مخاطب ہو کر فرمایا :عیسی کا والد کون ہے ؟ ہارون نے کہا :" عیسی کا کوئی والد نہیں ہے ۔امام علیہ السلام نے فرمایا جس طرح حضرت عیسی اپنی مادرگرامی مریم کے ذریعہ گذشتہ انبیاء سے وصل ہوسکتے ہیں اور ان کی طرف ان کی نسبت دی جاسکتی ہے اسی طرح ہم بھی اپنی مادر گرامی فاطمہ سلام اللہ علیہا کے ذریعہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے منسوب ہیں ۔ [7]
سکوت گناہوں کی تخفیف کا سبب
عن الکاظم(علیہ السلام ): «قلة المنطق حکم عظیم، فعلیکم بالصمت، فإنّه دعه حسنه و قلّة وزر و خفّة من الذنوب.»[8]
ترجمہ : سکوت اور کم بولنا بہت بڑی حکمت ہے ۔اور تمہارے لیے ضروری ہے کہ خاموش رہا کرو کیونکہ یہ آسائش بھلائی کا سبب ہے، اسکا ضرر کم ہے ، اور گناہوں کی تخفیف کا سبب ہے ۔
حضرت امام کاظم علیہ السلام سے ہارون کےخوف کے دو دلائل
- حضرت امام موسی بن جعفر علیہما السلام کی سماجی حیثیت اور معنوی نفوذ اس قدر زیاد ہ تھا کہ جس سے وہ لوگوں کے دلوں پر حکومت کرتے تھےاور اگرچہ امام علیہ السلام کا کسی قیام اور انقلاب کا ارادہ نہ تھا اور نہ ہی آپ نے کوئی اس طرح کا اقدام اٹھا یا ہے لیکن ہارون دوسرے حکام جور کی طرح اچھی طرح جانتا تھا کہ امام موسی کاظم علیہ السلام نے بھی دوسرے آئمہ علیہم السلام کی طرح معنوی اور ثقافتی انقلاب کی داغ بیل ڈال دی ہے لہذا وہ ہر طریقے سے امام علیہ السلام کے مقام و منزلت کو لوگوں کی نگاہ میں کم کرنے کی کوشش میں رہتا تھا ۔ [9]
- ہارون کو خوف تھا کہ جس طرح باقی آئمہ علیہم السلام کو شیعیان علی بن ابی طالب کی اقتصادی حمایت حاصل تھی اسی طرح امام موسی بن جعفر علیہماالسلام کو بھی حمایت حاصل ہے اور اگر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تو آپ علیہ السلام کے ماننے والے مالی لحاظ سے اس کے سامنے کھڑے ہونے کا قابل ہوجائیں گے اور پھر وہ ان کا راستہ نہ روک پائے گا ۔ [10]
مشکلات کے وقت امام سجاد علیہ السلام کی دعا
یا رَبِّ مَا قَدْ تَکَأدَنیَّ ثِقْلُهُ ، وَأَلَمَّ بِی مَا قَدْ بَهَظَنِی حَمْلُهُ ، وَبِقُدْرَتِکَ أَوْرَدْتَهُ عَلَیَّ وَبِسُلْطَانِکَوَجَّهْتَهُ إلیَّ. فَلاَ مُصْدِرَ لِمَا أوْرَدْتَ ، وَلاَ صَارِفَ لِمَا وَجَّهْتَ ، وَلاَ فَاتِحَ لِمَا أغْلَقْتَ ، وَلاَ مُغْلِقَ لِمَا فَتَحْتَ ،وَلاَ مُیَسِّرَ لِمَا عَسَّرْتَ، وَلاَ نَاصِرَ لِمَنْ خَذَلْتَ فَصَلَّعَلَى مُحَمَّد وَآلِهِ ، وَافْتَحْ لِی یَا رَبِّ بَابَ الْفَرَجِ بِطَوْلِکَ ، وَاکْسِرْ عَنِّیْ سُلْطَانَ الْهَمِّ بِحَوْلِکَ ، وَأَنِلْینیحُسْنَ ألنَّظَرِ فِیمَا شَکَوْتُ ، وَأذِقْنِی حَلاَوَةَ الصُّنْعِ فِیمَا سَاَلْتُ
ترجمہ:
پروردگارا ! مجھ پر ایک ایسی مصیبت نازل ہوئی ہے جس کی سنگینی نے مجھے گراں بار کر دیا ہے اور ایسی آفت آ پڑی ہے جس سے میری قوت برداشت عاجز ہو چکی ہے تو نے اپنی قدرت سے اس مصیبت کو مجھ پر وارد کیا ہے اور اپنے اقتدار سے میری طرف متوجہ کیا ہے ۔ تو جسے وارد کرے اسے کوئی ہٹانے والا ، اورجسے تومتوجہ کرے اسے کوئی پلٹانے والا ، اورجسے تو بند کرے اسے کوئی کھولنے والا اورجسے تو کھولے اسے کوئی بند کرنے والا اورجسے تو دشوار بنائے اسے کوئی آسان کرنے والا اورجسے تو نظر انداز کرے اسے کوئی مدد دینے والا نہیں ہے۔
[1] ۔ اصول کافی ،کلینی،یعقوب،ج 1 ص 476، بحار الانوار ،مجلسی،محمدباقر،ج 48 ص 2
[2] ۔ اصول کافی، ج 1 ص 477.
[3] ۔ مناقب ابن شهرآشوب، ج 2 ص 382، کشف الغمة، ج 2 ص 212، الارشاد مفید ص 270 و فصول المهمة، ص 214
[4] ـ تاریخ بغداد 13/27; وفیات الاعیان 5/310; روضة الواعظین 1/221; سیر اعلام النبلاء 6/270; صفة الصفوة 1/191; مناقب آل ابی طالب 4/349; اصول کافی 2/باب موسی بن جعفر علیهما السلام; نورالابصار 164; اعیان الشیعة 2/7 و عوام العلوم 2/15
[5] ۔ تفسیر نور الثقلین، عروسى حویزى عبد على بن جمعه، تحقیق: سید هاشم رسولى محلاتى،انتشارات اسماعیلیان، قم،1415 ق، چاپ: چهارم، ج 3،ص 55.
[6] ۔ انعام ، ۸۴ ،۸۵
[7] ۔ بحارالانوار، ج 48، ص 128، ط . بیروت; عیون اخبارالرضا، ج 1، ص 226; نورالابصار، ص 164 .
[9] ۔ الارشاد، ج 2، ص 239 . (سلسله مؤلفات مفید) ; عیون اخبار الرضا علیه السلام، ج 1، ص 208; کتاب الغیبه طوسی، ص 28; روضة الواعظین، ج 1، ص 219 .
[10] ۔ عوالم العلوم، ج 21، ص 245; مجموعه آثار استاد مطهری، ص 102; عیون اخبار الرضا علیه السلام، ج 1، ص 239 - 233 .