میلاد مبارک ختمی مرتبت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و الہ وسلم
ارہاص
ارہاص زبان عربی میں آمادہ ہونے خطرہ کی گھنٹی اور لوگوں کو اس کے لئے آمادہ کرنے کے معنی میں ہے کہ ایک اہم اتفاق پیش آنے والا ہے کہ معمولاًدوسرے بڑے پیغمبروں کی ولادت کے زمانوں میں بھی ایسے اتفاقات پیش آتے تھے چنانچہ ایسے واقعات حضرت موسیٰ علیہ السلام و حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ولادت کے زمانوں میں بھی پیش آئے ہیں۔
روایت میں آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت کی شب دنیا کے گوشے گوشے میں اہم واقعات پیش آئے جو اس قبل کبھی پیش نہیں آئے تھے.شاید اس بارے میں جامع ترین حدیث وہ ہے جو شیخ صدوق نے کتاب امالی میں خود اپنی سند سے حضرت امام صادق علیہ السلام سے نقل کی ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ حضرت نے فرمایا:ابلیس آسمانوں کی طرف جایا کرتا تھا جب حضرت عیسیٰ ع دنیا میں تشریف لائے تو اسے تین آسمانوں سے روک دیا گیا اور وہ چار آسمانوں تک کرتا تھا اور جب حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دنیا میں تشریف لائے تو اسے ساتوں آسمان سے روک دیا گیا اور شیطانوں کو شہابوں کے ذریعہ مار کر روکا گیا،جب قریش نے یہ دیکھا تو کہا جس قیامت کا ذکر اہل کتاب کیا کرتے تھے وہ آگئی !عمرو بن امیہ جو اس زمانے میں کہانت اور علم نجوم میں سب سے زیادہ عالم تھا اس نے قریش سے کہا: دیکھو اگر وہ ستارے ہیں جن کے ذریعہ لوگ راہ کا تعین کرتے ہیں اور جن سے گرمی و سردی کے موسم معلوم کئے جاتے ہیں تو سمجھ لو کہ قیامت آگئی ہے اور یہ تمام چیزوں کی نابودی کا پیش خیمہ ہے اور اگر ان کے علاوہ دوسرے ستارے ہیں تو کوئی نئی بات پیش آئی ہے ؟ اس رات تمام بت منھ کے بل گر پڑے اور کوئی ایک بت بھی اس روز اپنی جگہ کھڑا نہ رہا، کسریٰ کے ایوان میں اس شب دراڑیں پڑگئیں اور اس کے چودہ کنگرے گر پڑے ۔ ساوہ کی جھیل خشک ہو گئی اور سماوہ کی وادی جھیل میں تبدیل ہو گئی ۔فارس کا آتش کدہ جو ہزار برسوں سے گل نہیں ہوا تھااس رات اس کی آگ بجھ گئی۔
ماں کی شفقت سے محروم
باپ کا انتقال تو آپ کی پیدایش سے پہلے ہی ہو گیا تھا ۔لیکن ابھی آپ (ص) کی عمر کی چھ بہاریں گزری تھیں [1] کہ آپ کی والدہ جناب آمنہ اپنے رشتہ داروں اور اپنے مرحوم شوہر کی قبر کی زیارت کرنے گئیں اور آپ (ص) کواپنے ہمراہ لے گئیں ،مدینہ میں رشتہ داروں سے ملاقات کی اور شوہر کی قبر کی زیارت کرکے اپنے عہد کی تجدید کی اور پھر مکہ واپس آنے لگیں کہ راستہ میں '' ابوائ'' نامی جگہ پر آپ (آمنہ) کا انتقال ہوگیا۔ [2]و ہ عمر جس میں بچے کو ماں کی محبتوں اور باپ کی شفقت کی بے پناہ ضرورت ہوتی ہے اس عمر میں آپ (ص)کے سر سے دونوں کے سایہ اٹھ گیا ۔اس کے بعد آپ کی پرورش کی پوری ذمہ داری آپ کےدادا نے اتھائی۔
- قریش کے سردار جناب عبد المطلب رسول خدا (ص) کے ساتھ ہر گز اس طرح سے پیش نہیں آتے تھے جس طرح دوسرے بچوں کے ساتھ پیش آتے تھے بلکہ بہت عزت اوراحترام کرتے تھے ۔
جس وقت خانہ کعبہ کے گرد جناب عبد المطلب کے لئے مخصوص نشست بنائی جاتی اور ان کے فرزند اس کے گرد جمع ہو جاتے تو ایسا رعب طاری ہوتا کہ کوئی اس جگہ تک جا نہیں سکتا تھا ،لیکن آنحضرت (ص) اس جاہ و جلال سے کبھی مرعوب نہیں ہوئے ,
آنحضرت (ص) سیدھے وہاں جاتے تھے جہاں جناب عبد المطلب بیٹھے ہوتےتھے ،وہ لوگ جو آنحضرت کو وہاں جانے سے روکتے تھے عبد المطلب ان سے کہتے تھے کہ میرے فرزند کو روکو نہیں ،خدا کی قسم اس کی جدا گانہ شان ہے ، اس وقت آنحضرت (ص) جناب عبد المطلب کے پاس بیٹھ کر باتیں کرتے تھے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا اخلاق
پیغمبر اسلام ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسلامی اخلاق اور اقدار کو معاشرے میں نافذ اور لوگوں کی روح، عقائد اور زندگی میں رائج کرنے کے لئے، زندگی کی فضا کو اسلامی اقدار سے مملو کرنے کے لئے کوشاں رہتے تھے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نرمی اور سختی
قرآن کریم پیغمبر اکرم ( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی ملائمت اور لوگوں سے نرمی سے پیش آنے کی تعریف کرتا ہے اور کہتا ہے کہ آپ سخت نہیں ہیں۔ "فبما رحمۃ من اللہ لنت لھم و لو کنت فظا غلیظ القلب لانفضوا من حولک" یہی قرآن دوسری جگہ پر پیغمبر ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہتا ہے کہ یا ایھا النبی جاھد الکفار والمنافقین واغلظ علیھم" کفار اور منافقین سے سختی سے پیش آئیں۔ وہی "غلظ" (سختی) کا مادہ جو پہلے والی آیت میں تھا یہاں بھی ہے لیکن یہاں قانون کے نفاذ اور معاشرے کے امور چلانے اور نظم وضبط قائم کرنے میں ہے۔ وہاں سختی بری ہے، یہاں سختی اچھی ہے۔ وہاں سختی سے کام لینا برا ہے اور یہاں سختی سے کام لینا اچھا ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی امانتداری
آپ کا امین ہونا اور امانتداری ایسی تھی کہ دور جاہلیت میں آپ کا نام ہی امین پڑ گیا تھا اور لوگ جس امانت کو بہت قیمتی سمجھتے تھے، اسے آپ کے پاس رکھواتے تھے اور مطمئن ہوتے تھے کہ یہ امانت صحیح و سالم انہیں واپس مل جائے گی۔ حتی دعوت اسلام شروع ہونے اور قریش کی دشمنی اور عداوت میں شدت آنے کے بعد بھی ، ان حالات میں بھی، وہی دشمن اگر کوئی چیز کہیں امانت رکھوانا چاہتے تھے تو آکے رسول اسلام ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سپرد کرتے تھے۔ لہذا جب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے مدینے ہجرت فرمائی تو امیر المومنین (علیہ السلام) کو مکے میں چھوڑا تاکہ لوگوں کی امانتیں انہیں واپس لوٹا دیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے پاس لوگوں کی امانتیں تھیں۔ مسلمانوں کی امانتیں نہیں بلکہ کفار اور ان لوگوں کی امانتیں تھیں جو آپ سے دشمنی کرتے تھے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بردباری
آپ کے اندر تحمل اور بردباری اتنی زیادہ تھی کہ جن باتوں کو سن کے دوسرے بیتاب ہوجاتے تھے، ان باتوں سے آپ کے اندر بیتابی نہیں پیدا ہوتی تھی۔ بعض اوقات مکہ میں آپ کے دشمن آپ کے ساتھ ایسا برتاؤ کرتے تھے کہ ان میں سے ایک کے بارے میں جب جناب ابوطالب نے سنا تو اتنا غصبناک ہوئے کہ تلوار لی اور اپنے ملازم کے ساتھ وہاں گئے جہاں رسول اسلام ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ گستاخی ہوئی تھی اور پھر جتنے لوگوں نے گستاخی کی تھی ان میں سے ہر ایک کے ساتھ وہی کام کیا اور کہا کہ تم میں سے جو بھی اعتراض کرے گا اس کی گردن مار دوں گا، مگر پیغمبر نے وہی گستاخی بردباری کے ساتھ برداشت کی تھی۔ ایک بار ابوجہل سے آپ کی گفتگو ہوئی اور ابوجہل نے آپ کی بڑی توہین کی مگر آنحضرت ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے بردباری سے کام لیا اور خاموشی اختیار کی۔ کسی نے جاکے جناب حمزہ کو اطلاع دے دی کہ ابوجہل نے آپ کے بھتیجے کے ساتھ ایسا سلوک کیا۔ جناب حمزہ بیتاب ہو گئے۔ آپ گئے اور کمان سے ابوجہل کے سر پر اتنی زور سے مارا کہ خون نکلنے لگا اور پھر اسی واقعے کے بعد آپ نے اسلام کا اعلان کیا ۔بارہا آپ نے اپنے مغلوب دشمنوں کے ساتھ ایسا سلوک کیا جو ان کے لئے قابل فہم نہیں تھا۔ آٹھویں ہجری میں جب پیغمبر اکرم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اتنی عظمت و شکوہ کے ساتھ مکہ کو فتح کیا تو فرمایا" الیوم یوم المرحمۃ" آج عفو و درگذر سے کام لینے کا دن ہے لہذا انتقام نہ لو۔ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فراخدلی تھی۔
اچھے اخلاق کی دعوت
لوگوں کو ہمیشہ اچھی باتوں یعنی، عفو و درگذر، چشم پوشی، مہربانی، ایک دوسرے سے محبت، کاموں میں پائیداری، صبر، حلم، غصہ پر قابو پانے، خیانت نہ کرنے، چوری نہ کرنے، بد کلامی نہ کرنے، کسی کا برا نہ چاہنے، اور دل میں کینہ نہ رکھنے وغیرہ کی نصیحت و تلقین کریں۔ لوگوں کو ان باتوں کی ہمیشہ ضرورت رہتی ہے۔ کوئی ایسا زمانہ فرض نہیں کیا جا سکتا جب ان اچھی باتوں کی ضرورت نہ رہے۔ لوگوں کو ہمیشہ ان اقدار کی ضرورت رہتی ہے۔ اگر معاشرے میں یہ اقدار نہ ہوں تو ترقی کی اوج پر ہونے کے باوجود معاشرہ برا اور ناقابل قبول ہوگا۔
رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی راست بازی
رسول اسلام ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) راست باز تھے۔ زمانہ جاہلیت میں، آپ تجارت کرتے تھے؛ شام اور یمن جاتےتھے۔ تجارتی کاروانوں میں شامل ہوتے تھے اور آپ کے تجارتی حلیف تھے۔ زمانہ جاہلیت میں آپ کے تجارتی حلیفوں میں سے ایک بعد میں کہتا تھا کہ آپ بہترین حلیف تھے، نہ ضد کرتے تھے، نہ بحث کرتے تھے، نہ اپنا بوجھ حلیف کے کندھوں پر ڈالتے تھے، نہ خریدار کے ساتھ بد سلوکی کرتے تھے، نہ مہنگا بیچتے تھے اور نہ ہی جھوٹ بولتے تھے، راست باز تھے۔ یہ آنحضرت کی راست بازی ہی تھی کہ جس نے جناب خدیجہ کو جو کہ مکہ کی خاتون اول ( ملیکۃ العرب) اور حسب و نسب اور دولت و ثروت کے لحاظ سے بہت ہی ممتاز شخصیت تھیں، آپ کا شیدائی بنایا۔ حضرت نے شادی کے خاص بہترین ایام یعنی اپنی زندگی کے ۲۵سال جناب خدیجہ کے ساتھ گزارے ،خدیجہ حضرت کی صرف شریک حیات نہ تھیں بلکہ حضرت کی بہت بڑی مددگار بھی تھیں[3] عورتوں میں آپ حضرت پر سب سے پہلے ایمان لائیں اور اپنا سارا مال و متاع دین مقدس اسلام کی نشر و اشاعت کے لئے دے دیا ۔[4]
جناب خدیجہ سے حضرت کی کئی اولادیں ہوئیں ،قاسم اور طاہر دوفرزند اور ایک بیٹی جناب فاطمہ زہرا علیہا السلام ،دونوں بیٹے بچپنے میں ہی انتقالکر گئے ۔[5]جناب خدیجہ کی محبت، فدکاری ،کی حضرت ہمیشہ قدر کرتے رہے۔زندگی میں بھی ان کے قدر داں رہے اور ان کے انتقال کے بعد بھی برابر یاد کرتے رہےاور جب بھی یاد کرتے تھے غمگین ہو جاتے تھے ۔[6]کبھی کبھی ان کی یادمیں میں آنسوبھی نکل آتے تھے ۔جناب خدیجہ کی حیات کا چراغ اگر چہ ۶۵برس کی عمر میں گل ہوا [7] لیکن حضرت کا گھر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خدیجہ کے نور سے محروم ہو گیا۔