تبلیغی فاصلاتی نظام

اس بلاگ میں قرآن و اھلیبیت علیھم السلام اور ان سے متعلق دوسرے علوم کے بارے میں مضامین اور مطالب قارئین کی خدمت میں پیش کیئے جائیں گے۔

تبلیغی فاصلاتی نظام

اس بلاگ میں قرآن و اھلیبیت علیھم السلام اور ان سے متعلق دوسرے علوم کے بارے میں مضامین اور مطالب قارئین کی خدمت میں پیش کیئے جائیں گے۔

تبلیغی فاصلاتی نظام
قرآن وعلوم قرآن و اهلبیت...

امام ہادی علیہ السلام اپنی امامت کے شروع کے دور سے ہی مدینہ منورہ میں  سکونت پذیر تھے ۔اس دوران  صر ف اپنے  حبداروں کے لیے  ہی نہیں بلکہ تمام مسلمانوں کے لیے امامت کے فرائض کو بخوبی انجام دیتے رہے ۔ یہاں  تک کہ عباسی حکومت پر امام علیہ السلام  کا اس طرح امامت  کے  فرائض کو انجام دینا سخت ناگوار گذرا ۔  اور آپ کے یہاں رہنے کو  اپنی حکومت کے لیے خطرہ  محسوس کرنے لگے۔ چنانچہ  متوکل نے امام ہادی علیہ السلام  کو اپنے تحت نظر رکھنے  کا  ارادہ کر لیا ۔  اور آپ علیہ السلام کو مدینہ سے سامراء کی طرف  بھیجنے کی ٹھان لی ۔ متوکل نے یحیی بن حرثمہ کو حکم دیا کہ وہ  امام علیہ السلام کو  مدینہ سے سامراء منتقل کر ے  جب یحیی بن حرثمہ مدینہ پہنچا تو لوگوں نے امام علیہ السلام سے  اپنی محبت  کا اظھار  کرتے ہوئے امام علیہ السلام کو مدینہ سے لے جانے پر اعتراض  کیا ۔ جب حرثمہ نے یہ  حالت دیکھی  تو اس نے کہا  کہ  ہم امام علیہ السلام کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہچائیں گے ۔کچھ عرصہ گذرنے کے بعد اس بہانے سے کہ امام ہادی علیہ السلام کے گھر میں حکومت عباسی کے خلاف اسلحہ جمع کیا جارہاہے آپ کے گھر پر  حملہ کردیا لیکن قرآن اور دعا کے علاوہ ان کے  ہاتھ کچھ  نہ  لگا ۔ جو چیز زیادہ  توجہ کا باعث بنی وہ یہ ہے کہ خود حرثمہ جب امام علیہ السلام کے گھر کی تلاشی لیکر لوٹا تو کہنے لگا میں نے امام ہادی کو شجاعت اور تقوی میں اونچے مراتب پر پایا  ۔[4]۔

جب متوکل اپنے حربے میں ناکام رہا تو اس نے اپنے اردگرد کے لوگوں کو کہا کہ  وہ  امام ہادی علیہ السلام سے مقابلہ کرنے  میں ہر لحاظ سے ناکام ہوگیا ہے   لیکن پھر بھی اس نے  امام علیہ السلام کو  آزار و اذیت دینے  میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور  امام علیہ السلام کو  شہید کرنے کا منصوبہ بنایا۔اس سے پہلے کہ  متوکل کا یہ منصوبہ کامیاب ہوتا  وہ  خود ہی واصل جہنم ہوگیا ۔[5]

امام ہادی علیہ السلام کو رجب ۲۵۴ ہجری  قمری میں سامراء میں  معتز عباسی نے شہید کروا دیا ۔[6]

اهل بیت (ع) مصادیق کلمات الله

قَالَ مُوسَى بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الرِّضَا لَقِیتُ یَحْیَى بْنَ أَکْثَمَ فِی دَارِ الْعَامَّةِ فَسَأَلَنِی عَنْ مَسَائِلَ فَجِئْتُ إِلَى أَخِی عَلِیِّ بْنِ مُحَمَّدٍ فَدَارَ بَیْنِی وَ بَیْنَهُ مِنَ الْمَوَاعِظِ مَا حَمَلَنِی وَ بَصَّرَنِی طَاعَتَهُ فَقُلْتُ لَهُ جُعِلْتُ فِدَاکَ إِنَّ ابْنَ أَکْثَمَ کَتَبَ یَسْأَلُنِی عَنْ مَسَائِلَ لِأُفْتِیَهُ فِیهَا فَضَحِکَ ثُمَّ قَالَ فَهَلْ أَفْتَیْتَهُ قُلْتُ لَا قَالَ وَ لِمَ قُلْتُ لَمْ أَعْرِفْهَا قَالَ وَ مَا هِیَ قُلْتُ کَتَبَ یَسْأَلُنِی عَنْ‏قَوْلِ اللَّه‏ «وَ لَوْ أَنَّ ما فِی الْأَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ أَقْلامٌ وَ الْبَحْرُ یَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ ما نَفِدَتْ کَلِماتُ اللَّهِ‏» قال(ع)فَهُوَ کَذَلِکَ لَوْ أَنَّ أَشْجَارَ الدُّنْیَا أَقْلَامٌ وَ الْبَحْرُ یَمُدُّهُ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ وَ انْفَجَرَتِ الْأَرْضُ عُیُوناً لَنَفَدَتْ قَبْلَ أَنْ تَنْفَدَ کَلِمَاتُ اللَّهِ وَ هِیَ عَیْنُ الْکِبْرِیتِ وَ عَیْنُ النَّمِرِ وَ عَیْنُ الْبَرَهُوتِ‏ وَ عَیْنُ طَبَرِیَّةَ وَ حَمَّةُ مَاسَبَذَانَ‏ وَ حَمَّةُ إِفْرِیقِیَةَ یُدْعَى لسان وَ عَیْنُ بحرون‏ «1» وَ نَحْنُ کَلِمَاتُ اللَّهِ الَّتِی لَا تَنْفَدُ وَ لَا تُدْرَکُ فَضَائِلُنَا۔[7]

ترجمہ : موسی بن محمد بن الرضا  کہتے ہیں میں نے یحی بن اکثم سے خلیفہ کے سرائے عام   میں ملاقات کی ۔ اس نےمجھ  سے چند مسائل پوچھے ۔ میں  اپنے بھائی علی بن محمد {امام ہادی } علیہ السلام  کی خدمت میں  حاضر ہوا اور ان کے اور میرے درمیان  بات چیت ہوئی  جس کے نتیجے میں  انہوں نے مجھے اپنی امامت  کا قائل کیا اور  میں نے ان کی اطاعت کا  دم بھرنا شروع کردیا ۔ اس کے بعد میں نے ان سے عرض کی کہ  آپ  پر قربان ہوجاوں یحی بن اکثم نے مجھ سے چند مسائل پوچھے ہیں اور اس نے جواب کا مطالبہ کیا ہے ۔ امام علیہ السلام مسکرائے اور فرمایا : تم نے اس کا جواب دیا ؟  تو میں نے عرض کی نہیں ۔ انہوں نے پوچھا کیوں ؟ تو میں نے کہا  میں نہیں جانتا  تھا ۔ تو امام نے پوچھا  وہ کیا مسائل تھے۔ تو میں نے عرض کی اس  نے اس آیت «وَ لَوْ أَنَّ ما فِی الْأَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ أَقْلامٌ وَ الْبَحْرُ یَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ ما نَفِدَتْ کَلِماتُ اللَّهِ‏» کے بارے میں سوال کیا۔ تو امام نے فرمایا : لکھو :حقیقت یہی ہے کہ اگر دنیا کے تمام درخت قلم بن جائیں اور اس سمندر میں سات اور سمندروں کا اضافہ کر دیا جائے اور اس کے ساتھ دنیا کے چشمے  بھی پھوٹ پڑیں  تو  یہ تمام کے تمام ختم ہوجائیں گے لیکن  کلمات اللہ  ختم نہیں ہوں گے ۔  امام علیہ السلام نے ان چشموں کو بیان کرتے ہوئے فرمایا ان چشموں سے مراد  چشمہ گوگرد ، نمر ، برہوت ،طبریہ ،سبندان کا گرم چشمہ  ، افریقہ کا لسان نامی چشمہ اور بحرون  کا چشمہ ہے ۔ اس کے بعد امام علیہ السلام فرماتے ہیں  : ہم کلمات اللہ ہیں  جو ختم ہونے والے نہیں ہیں اورہمارے فضائل  درک نہیں ہوسکتے ۔

ناپسندیدہ  صفات

قالَ الإمامُ الهادی ( علیه السلام ) : الْحَسَدُ ماحِقُ الْحَسَناتِ، وَالزَّهْوُ جالِبُ الْمَقْتِ، وَالْعُجْبُ صارِفٌ عَنْ طَلَبِ الْعِلْمِ داع إلَی الْغَمْطِ وَالْجَهْلِ، وَالبُخْلُ أذَمُّ الاْخْلاقِ، وَالطَّمَعُ سَجیَّةٌ سَیِّئَةٌ

امام ہادی علیہ السلام فرماتے ہیں:حسد نیکیوں کو کھا جاتا ہے ۔غرور، تکبّر اور خودخواہی دشمن   پرور ہیں ۔ عجب اور خود پسندی تحصیل علم کی راہ میں  رکاوٹ کا باعث بنتے  ہیں۔ ۔ اور ان کے نتیجے میں انسان نادانی اور پستی کا شکار ہوجاتا ہے ۔ کنجوسی ا ور بخل بہت بری صفات  ہیں  ، اور اسی طرح لالچ بہت بری بلا ہے ۔

ثقافتی یلغار

امام ہادی علیہ السلام کی دوسرے ائمہ کی طرح  ایک اور اہم ذمہ داری دین اسلام کی فکری  اور ثقافتی سرحدوں کی  حفاظت کرنا رہی  تاکہ دشمنان اسلام کسی بھی طریقے سے دین اسلام کی بنیاد  کمزور نہ کر سکیں ۔مخالفین اسلام  کی انہی سازشوں کو کمزور  کرنے کے لیے  امام علیہ السلام نے دینی مدارس کی تاسیس کی  جن  میں اصول ،فقہ ،عقائد کی تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ بہترین شاگردوں کی تربیت کی۔  آپ کے شاگردوں میں شاہ عبدالعظیم حسنی ،خیر ان الخادم  ، ابن سکیت اہوازی ، ابوہاشم جعفری ، حسین ابن محمد مدائنی  جعفر بن  سہیل ، اسماعیل  بن مہران و ۔۔۔۔۔ شامل ہیں

اسکے علاوہ  آپ نے  اپنے والد بزرگوار اور جد امجد  کے شاگردوں کو بھی    اپنی زیر سرپرستی لیا اور مدینہ میں  ایک فعال دینی مرکز کی  بنیاد رکھی ۔ شیخ طوسی رحمۃاللہ نے  اس مدرسہ میں تربیت پانے والے  شاگرد وں کی تعداد ۱۸۵ ذکر  کی ہے  ۔   

امام سجاد علیہ السلام  کی اولاد کے لیے دعا

اَللَّهُمَّ وَ مُنَّ عَلَىَّ بِبَقآءِ وُلْدى، وَ بِاِصْلاحِهِمْ لى، وَ بِاِمْتاعى بِهِمْ. اِلهى امْدُدْلى فى اَعْمارِهِمْ، وَزِدْلى فِى اجالِهِمْ، وَ رَبِّ لى صَغیرَهُمْ، وَ قَوِّ لى ضَعیفَهُمْ، وَ اَصِحَّ لِى اَبْدانَهُمْ وَ اَدْیانَهُمْ وَ اَخْلاقَهُمْ ۔[8]

بارالہا : میری اولاد کو باقی رکھ کر مجھ پر احسان فرما، اور انہیں صالح بنا ، اورانہیں میرے لیے بہترین سرمایہ قرار دے ۔ بارالہا  انہیں طول عمر عطا فرما ، اور ان کی نسل میں اضافہ فرما، ان میں  چھوٹوں کی تربیت اور بزرگوں کوقوت عطافرما، ان  کو بدنی سلامتی ، دینی  تحفظ  اور اخلاقی کمال عطا فرما۔

ماخذ کا تعارف

  1. الامام الهادی(ع) قدوة و اسوة، سید محمد تقی المدرسی، تهران، مکتب العلامه المدرسی، 1420ق، 71ص.

2- اعلام الهدایه، ج12: الامام علی بن محمد الهادی، گروه نویسندگان، قم، المجمع العالمی لاهل البیت، 1422ق، 244ص.

3- لمحات من حیاة الامام الهادی، محمدرضا سیبویه، مشهد، آستان قدس رضوی، 1413ه ق، 134ص

۴: http://www.al-shia.org/html/urd/page.php?id=62&page=1

گروہ تربیت المصطفی ورچوئل یونیورسٹی شعبہ اردو

برای مہربانی اپنی مفید آراء سے مطلع فرمائیں۔  شکریہ

quran.aou@gmail.com

 

 

 

 

 

 



[1] ۔ شیخ مفید ،الارشاد، ص ۳۲۷

[2] ایضا، ص ۳۰۷

[3] ۔مناقب آل ابی طالب علیہ السلام، ج۴،ص  ۴۰۱

[4] ۔ ابن جوزی ، تذکرۃ الخواص  ، ص ۳۵۹

[5] ۔ابن طاووس ،جمال الاسبوع بکمال العمل المشروع ، ص۲۷،منقول از تاریخ تشیع ،ج ۱، ص ۲۹۲

[6] ۔ شیخ مفید ، الارشاد ،ص ۳۲۷

[7] ۔بحار الانوار ، علامہ مجلسی ، ج ۱۰، ص ۳۸۶

[8] ۔صحیفہ سجادیہ ، دعا نمبر ۲۵، ص  ۱۴۱۔۱۴۲ 

نظرات (۰)

ابھی تک کوئ نظر ثبت نہیں ہوی

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی