تبلیغی فاصلاتی نظام

اس بلاگ میں قرآن و اھلیبیت علیھم السلام اور ان سے متعلق دوسرے علوم کے بارے میں مضامین اور مطالب قارئین کی خدمت میں پیش کیئے جائیں گے۔

تبلیغی فاصلاتی نظام

اس بلاگ میں قرآن و اھلیبیت علیھم السلام اور ان سے متعلق دوسرے علوم کے بارے میں مضامین اور مطالب قارئین کی خدمت میں پیش کیئے جائیں گے۔

تبلیغی فاصلاتی نظام
قرآن وعلوم قرآن و اهلبیت...

پیغمبر اسلام(ص) نے آپ کو ام ابیھا کا لقب اس لئے دیا . کیونکہ عربی میں اس لفظ کے معنی، ماں کے علاوہ اصل اور مبداء کے بھی ہیں یعنی جڑ اور بنیاد ۔ لہذا اس لقب( ام ابیھا) کا ایک مطلب نبوت اور ولایت کی بنیاد اور مبدا بھی ہے۔ کیونکر یہ آپ ہی کا وجود تھا، جس کی برکت سے شجرہ ٴ امامت و ولایت نے فروغ پایا اور نبی خدا کو ابتریت کے طعنہ سے بچایا ۔

والدین
آپ کےوالد ماجد ختمی مرتبت حضرت محمد مصطفی(ص) اور والدہ ماجدہ حضرت خدیجہ بنت خویلد ہیں۔آپ کے والد کی شان اقدس بھلا کون  بیان کرسکتا ہے۔ آپ کے والد ختم المرسلین، حبیب خدا اور محسن انسانیت ہیں جنکے اوصاف و کمالات لکھنے سے قلم عاجز ہیں۔ فصحاء و بلغاء عالم، جس کے محاسن کی توصیف سے ششدر ہیں۔

اور آپ کی والدہ ماجدہ، جناب خدیجہ بنت خویلد جو قبل از اسلام قریش کی سب سے زیادہ باعفت اور نیک خاتون تھیں ۔ وہ عالم اسلام کی سب سے پہلی خاتون تھیں جو خورشید اسلام کے طلوع کے بعد حضرت محمد مصطفی(ص) پر ایمان لائیں اور اپنا تمام مال دنیا فروغ اسلام  کےلئے اپنے شوہر کے اختیار میں دے دیا ۔ تاریخ اسلام، حضرت خدیجہ(س) کی پیغمبر اسلام(ص) کے ساتھ وفاداری اور فداکاری کو ہرگز نھیں بھلا سکتی۔یہی وجہ تھی جب تک آپ زندہ رہیں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والیہ وسلم  کوئی دوسری شادی نہیں کی اور ہمیشہ آپ کی عظمت کا قصیدہ پڑھا۔حضرت فاطمہ زھراء(س) ایسی والدہ اور والد کی آغوش  میں پرورش پائی۔

ولادت
مستند روایات کی روایات کی بنیاد پر آپ کی ولادت بعثت کے پانچویں سال ۲۰ جمادی الثانی، بروز جمعہ مکہ معظمہ میں ھوئی۔
بچپن اور تربیت

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا پانچ برس تک اپنی والدہ ماجدہ حضرت خدیجۃ الکبری کے زیر سایہ رہیں اور جب بعثت کے دسویں برس خدیجۃ الکبریٰ علیہا السّلام کا انتقال ہو گیا تو آپ نے صرف اپنے بابا کے سایہ رحمت میں تربیت پائی۔ پیغمبر اسلام کی اخلاقی تربیت کا آفتاب تھا جس کی شعاعیں براه راست اس بے نظیر گوہر کی آب وتاب میں اضافہ کر رہی تھیں ۔

جناب سیّدہ سلام اللہ علیہا کو اپنے بچپن میں بہت سے ناگوار حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ پانچ سال کی عمر میں سر سے ماں کا سایہ اٹھ گیا ۔ اب باپ کے زیر سایہ زندگی شروع ہوئی تو اسلام کے دشمنوں کی طرف سے رسول کو دی جانے والی اذیتیں سامنے تھیں ۔ کبھی اپنے بابا کے جسم مبارک کو پتھروں سے لہو لہان دیکھتیں تو کبھی سنتی کے مشرکوں نے بابا کے سر پر کوڑا ڈال دیا۔ کبھی سنتیں کہ دشمن بابا کے قتل کا منصوبہ بنا رہے ہیں ۔ مگر اس کم سنی کے عالم میں بھی سیّدہ عالم نہ ڈریں نہ سہمیں نہ گھبرائیں بلکہ اس ننھی سی عمر میں اپنے بزرگ مرتبہ باپ کی مددگار بنی رہیں۔

حضرت فاطمہ(س) کی شادی


یہ بات شروع سے ہی سب پر عیاں تھی کہ علی(ع) کے علاوہ کوئی دوسرا دختر رسول(ص) کا کفو و ہمتا نھیں ہے ۔     مورخین لکھتے ہیں کہ : آپ   تین مرتبہ رسول اکرم(ص) کے گھر گئے لیکن اپنی بات نہ کہہ سکے۔ آخر کار تیسری مرتبہ پیغمبر اکرم(ص) نے پوچھ ہی لیا : اے علی کیا کوئی کام ہے ؟

حضرت امیر(ع) نے جواب دیا : جی، رسول اکرم(ص) نے فرمایا : شاید زہراء سے شادی کی نسبت لے کر آئے ہو ؟ حضرت علی(ع) نے جواب دیا، جی ۔ چونکہ مشیت الٰہی بھی یہی چاہ رہی تھی کہ یہ عظیم رشتہ قائم ہو لہذا حضرت علی(ع) کے آنے سے پہلے ہی رسول اکرم(ص) کو وحی کے ذریعہ اس بات سے آگاہ کیا جا چکا تھا ۔ بہتر تھا کہ پیغمبر(ص) اس نسبت کا تذکرہ زہرا(س) سے بھی کرتے لہذا آپ نے اپنی صاحب زادی سے فرمایا : آپ، علی(ع) کو بہت اچھی طرح جانتیں ہیں ۔ وہ سب سے زیادہ میرے نزدیک ہیں ۔ علی(ع) اسلام کے  اولین خدمت گاروں اور با فضیلت افراد میں سے ہیں، میں نے خدا سے یہ چاہا تھا کہ وہ تمہارے لئے بہترین شوہر کا انتخاب کرے ۔

اور خدا نے مجھے یہ حکم دیا کہ میں تمہاری کی شادی علی(ع) سے کر دوں تمہاری کیا رائے ہے ؟

حضرت زہراء(س) خاموش رہیں، پیغمبر اسلام(ص) نے آپ کی خاموشی کو آپ کی رضا مندی سمجھا اور خوشی کے ساتھ تکبیر کہتے ہوئے وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے ۔ پھر حضرت علی (ع) کو شادی کی بشارت دی ۔ حضرت فاطمہ زہرا(س) کا مہر ۴۰ مثقال چاندی قرار پایا اور اصحاب کے ایک مجمع میں خطبہ نکاح پڑھا دیا گیا ۔

اس طرح کائنات کے سب سے بہتر جوڑے کی شادی کے مراسم نہایت سادگی سے انجام پائے ۔

حضرت فاطمہ (س) کا نظام عمل


حضرت فاطمہ زہرا نے شادی کے بعد جس نطام زندگی کا نمونہ پیش کیا وہ خواتین کے لئے ایک مثالی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ گھر کا تمام کام اپنے ہاتھ سے کرتی تھیں ۔ جھاڑو دینا، کھانا پکانا، چرخہ چلانا، چکی پیسنا اور بچوں کی تربیت کرنا ۔ یہ سب کام اور ایک اکیلی سیدہ لیکن نہ تو کبھی تیوریوں پر بل پڑے اور نہ کبھی اپنے شوہر حضرت علی علیہ السّلام سے اپنے لیے کسی مددگار یا خادمہ کے انتظام کی فرمائش کی۔ ایک مرتبہ اپنے پدر بزرگوار حضرت رسولِ خدا سے ایک کنیز عطا کرنے کی خواہش کی تو رسول نے بجائے کنیز عطا کرنے کے وہ تسبیح تعلیم فرمائی جو تسبیح فاطمہ زہرا کے نام سے مشہور ہے ۳۴ مرتبہ اللہ اکبر، 33 مرتبہ الحمد اللہ اور 33 مرتبہ سبحان اللہ۔ حضرت فاطمہ اس تسبیح کی تعلیم سے اتنی خوش ہوئی کہ کنیز کی خواہش ترک کردی ۔ بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والیہ وسلم  نے بلا طلب ایک کنیز عطا فرمائی جو فضہ کے نام سے مشہور ہے۔ جناب سیّدہ اپنی کنیز فضہ کے ساتھ کنیز جیسا برتاؤ نہیں کرتی تھیں بلکہ اس سے ایک برابر کے دوست جیسا سلوک کرتی تھیں. وہ ایک دن گھر کا کام خود کرتیں اور ایک دن فضہ سے کراتیں۔ اسلام کی تعلیم یقیناً یہ ہے کہ مرد اور عورت دونوں زندگی کے جہاد میں مشترک طور پر حصہ لیں اور کام کریں . بیکار نہ بیٹھیں مگر ان دونوں میں صنف کے اختلاف کے لحاظ سے تقسیم عمل ہے۔ اس تقسیم کار کو علی علیہ السّلام اور فاطمہ نے مکمل طریقہ پر دُنیا کے سامنے پیش کر دیا۔ گھر سے باہر کے تمام کام اور اپنی قوت بازو سے اپنے اور اپنے گھر والوں کی زندگی کے خرچ کا سامان مہیا کرنا علی علیہ السّلام کے ذمہ تھا اور گھر کے اندر کے تمام کام حضرت فاطمہ زہرا انجام دیتی تھیں۔

 
فاطمہ زہرا(س) اور پیغمبر اسلام

حضرت فاطمہ زہرا (س) کے اوصاف وکمالات اتنے بلند تھے کہ ان کی بنا پر رسول(ص) فاطمہ زہرا (س) سے محبت بھی کرتے تھے اور عزت بھی ۔ محبت کا ایک نمونہ یہ ہے کہ جب آپ کسی غزوہ پر تشریف لے جاتے تھے تو سب سے آخر میں فاطمہ زہرا سے رخصت ہوتے تھے اور جب واپس تشریف لاتے تھے تو سب سے پہلے فاطمہ زہرا سے ملنے کے لئے جاتے تھے .

اور عزت و احترام کا نمونہ یہ ہے کہ جب فاطمہ(س) ان حضور کی خدمت میں حاضر ہوتیں تو آپ تعظیم کے لۓ کھڑے ہوجاتے اور اپنی جگہ پر بٹھاتے تھے . رسول کا یہ برتاؤ فاطمہ زہرا کے علاوہ کسی دوسرے شخص کے ساتھ نہ تھا .

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا پیغمبر(ص) کی نظر میں


  حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شان میں آنحضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم سے لاتعداد روایات اور احادیث نقل کی گئی ہیں جن میں چند ایک یہ ہیں۔
" فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہیں"
" آپ بہشت میں جانے والی عورتوں کی سردار ہیں۔ "
" ایما ن لانے والی عوتوں کی سردار ہیں ."
" تما م جہانوں کی عورتوں کی سردار ہیں "
" آپ کی رضا سے اللہ راضی ہوتا ہے اور آپ کی ناراضگی سےاللہ ناراض ہوتا ہے "
" جس نے آپ کو ایذا دی اس نے رسول کو ایذا دی"

حضرت فاطمہ زہرا(س) کی وصیتیں


حضرت فاطمہ زہرا(س) نے خواتین کے لیے پردے کی اہمیت کو اس وقت بھی ظاہر کیا جب آپ دنیا سے رخصت ہونے والی تھیں . اس طرح کہ آپ ایک دن غیر معمولی فکر مند نظر آئیں . آپ کی چچی(جعفر طیار(ع) کی بیوہ) اسماء بنتِ عمیس نے سبب دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ مجھے جنازہ کے اٹھانے کا یہ دستور اچھا نہیں معلوم ہوتا کہ عورت کی میّت کو بھی تختہ پر اٹھایا جاتا ہے جس سے اس کا قدوقامت نظر اتا ہے . اسما(ع) نے کہا کہ میں نے ملک حبشہ میں ایک طریقہ جنازہ اٹھانے کا دیکھا ہے وہ غالباً آپ کو پسند ہو. اسکے بعد انھوں نے تابوت کی ایک شکل بنا کر دکھائی اس پر سیّدہ عالم بہت خوش ہوئیں اور پیغمبر کے بعد صرف ایک موقع ایسا تھا کہ اپ کے لبوں پر مسکراہٹ آ گئی چنانچہ آپ نے وصیّت فرمائی کہ آپ کو اسی طرح کے تابوت میں اٹھایا جائے . مورخین کا کہنا ہے  کہ سب سے پہلی جنازہ جو تابوت میں اٹھا ہے وہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا تھا۔ ا سکے علاوہ آپ نے یہ وصیت بھی فرمائی تھی کہ آپ کا جنازہ شب کی تاریکی میں اٹھایا جائے اور ان لوگوں کو اطلاع نہ دی جائے جن کے طرزعمل نے میرے دل میں زخم پیدا کر دئے ہیں۔  سیدہ ان لوگوں سے انتہائی ناراضگی کے عالم میں اس دنیا سے رخصت ہوئیں۔

شہادت
سیدہ عالم نے اپنے والد بزرگوار رسولِ خدا کی وفات کے بارے میں تاریخ میں   کئی قول ملتے ہیں جن میں سے ۳ زیادہ مشہور ہیں

۱: 8        سے        10 ربیع الثانی

۲: 13  سے 15 جمادی الاولی

۳: 1  سے 3 جمادی الثانی( بیشتر علمائ  شیعہ  اس قول کو  ترجیح  دیتے ہیں )

آپ نے سن ۱۱ ہجری قمری میں وفات پائی . آپ کی وصیّت کے مطابق آپ کا جنازہ رات کو اٹھایا گیا .حضرت علی علیہ السّلام نے تجہیز و تکفین کا انتظام کیا . صرف بنی ہاشم اور سلیمان فارسی(ع)، مقداد(رض) و عمار(ع) جیسے مخلص و وفادار اصحاب کے ساتھ نماز جنازہ پڑھ کر خاموشی کے ساتھ دفن کر دیا۔ 

اولاد
حضرت فاطمہ زہرا(س) کو اللہ نے پانچ اولاد عطا فرمائیں جن میں سے تین لڑکے اور دو لڑکیاں تھیں ۔ شادی کے بعد حضرت فاطمہ زہرا صرف نو برس زندہ رہیں ۔ اس نو برس میں شادی کے دوسرے سال حضرت امام حسن علیہ السّلام پیدا ہوئے اور تیسرے سال حضرت امام حسین علیہ السّلام . پھر غالباً پانچویں سال حضرت زینب اور ساتویں سال حضرت امِ کلثوم ۔ نویں سال جناب محسن علیہ السلام بطن میں تھے جب ہی وہ ناگوار مصائب پیش آئے جن کے سبب سے وہ دنیا میں تشریف نہ لا سکے اور بطن مادر میں ہی شہید ہو گئے۔ اس جسمانی صدمہ سے حضرت سیّدہ بھی جانبر نہ ہوسکیں .لہذا وفات کے وقت آپ نے دو صاحبزادوں حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین علیہما السّلام اور دو صاحبزادیوں زینب کبری و امِ کلثوم کو چھوڑا جو اپنے اوصاف کے لحاظ سے طبقہ خواتین میں اپنی ماں کی سچی جانشین ثابت ہوئیں۔

(بشکریہ سائٹ تبیان)

نظرات (۱)

السلام علیک یا بنت رسول الله

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی